Mr. Jackson
@mrjackson
خواتین کا صفحہمضامین

مستند ہے اُن کا فرمایا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

وہ صرف ضدی، ہٹ دھرم اور نرگسیت کا شکار ہی نہیں، اِس زعم میں بھی مبتلاء ہے کہ اُس کا فرمایا مستند۔ اپنے ساڑھے تین سالہ دورِحکومت میں اُس کے ارسطوانہ خطبات وبیانات لطائف میں ڈھل چکے۔ وہ اب جیل میں ہے لیکن ”بوئے سلطانی“ اب بھی موجود۔ وجہ یہ کہ جب عدلیہ اور فوج میاں نوازشریف کو مائنس کرنے پرتُلی بیٹھی تھی تب یہی لاڈلا اُن کی آنکھ کاتارا تھا۔2018 ء کے عام انتخابات میں RTS بند کرکے اُسے جتوایا گیالیکن اُسے قطعی اکثریت پھربھی نہ ملی۔ پھر چھوٹی سیاسی جماعتوں اور آزاد ارکانِ اسمبلی کوگھیر گھار کر اُس کی حکومت بنوائی گئی۔ زورآوروں کو جلدہی اِس غلط انتخاب کا احساس ہوگیا لیکن تب تک اُس کی نرگسیت اور لاڈلاپن اپنے عروج پر پہنچ چکاتھا۔ پھر تحریکِ عدم اعتمادکے ذریعے اُس کی حکومت کاخاتمہ ہوا۔ سانحہ 9مئی کے بعد اُس کے خلاف کئی مقدمات درج ہوئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے کچھ ججز کے نزدیک وہ تب بھی لاڈلاتھا اور اب بھی ہے۔
4جولائی کواڈیالہ جیل میں قید لاڈلے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ پرعدم اعتمادکا اظہار کردیا۔ لاڈلے نے کہاکہ اُن کے اور تحریکِ انصاف کے ہرمقدمے میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کیسے آجاتے ہیں۔ اُن کے وکلاء نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی ہربنچ میں موجودگی پراعتراض اُٹھایا۔ حقیقت یہ کہ لاڈلااب بھی وہی ”بندیالی کورٹ“ ڈھونڈتا ہے جس نے اُسے مرسیڈیز میں اپنے کورٹ میں بلایا ”گُڈ ٹو سی یو“ کہا اورپھر یہ کہتے ہوئے اُسے پولیس ریسٹ ہاؤس میں بھیج دیاکہ وہ اگلے دن اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاکر اپنی ضمانت کروالے۔ یہ وہی لاڈلا ہے جسے اُن مقدمات میں بھی ضمانت دے دی گئی جوابھی درج بھی نہیں ہوئے تھے، جس کی کورٹ میں حاضری لگوانے کے لیے ایس پی فائل لے کر اُس کی گاڑی میں دست بستہ حاضر ہوا۔ اِس کے علاوہ بھی کئی بارایسا ہواکہ اُسے عدالت میں 9بجے حاضر ہوناہوتا تھا لیکن ججز رات تک اُس کا انتظار کرتے رہتے۔ جب ایک ملزم کے ساتھ عدالتیں ایسا سلوک کریں گی تو اُس کے دماغ میں خناس توپیدا ہوناہی تھا۔ اُس نے چیف جسٹس صاحب پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ قاضی صاحب اُن کے خلاف ہربنچ میں کیسے آجاتے ہیں؟۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین وقانون سے سرِمُو انحراف نہ کرنے والے قاضی فائزعیسیٰ کو تاریخِ عدل ہمیشہ یاد رکھے گی۔ پارلیمنٹ کے منظورکردہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کوسابق چیف جسٹس عمرعطابندیال نے معطل کررکھا تھا جسے قاضی صاحب نے چیف جسٹس کاعہدہ سنبھالتے ہی بحال کردیا۔ اِس ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت 3سینئرترین جسٹس صاحبان کی کمیٹی ہی تمام فیصلے کرتی ہے جس میں اَزخودنوٹس اور بنچوں کی تشکیل بھی شامل ہے۔ لاڈلے کایہ اعتراض کوئی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ عمرعطابندیال کی طرح قاضی صاحب خودہی کسی بنچ کی سربراہی نہیں کرتے بلکہ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے۔ یہ قاضی فائزعیسیٰ ہی ہیں جنہوں نے فُل کورٹ بُلاکر تمام کارروائی براہِ راست دکھانے کاحکم صادر فرمایا۔ اِس سے پہلے 4سالوں تک فُل کورٹ نہیں بلایا گیا۔ وہ قاضی صاحب ہی ہیں جنہوں نے 45سال بعد ذوالفقارعلی بھٹو کو انصاف دلایا، پرویزمشرف کی پھانسی کی سزا برقرار رکھتے ہوئے خصوصی عدالت کو کالعدم قرار دینے کا لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیا، جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کو 6سال بعد غیرقانونی قرار دیا اورسب سے بڑھ کر 8فروری کو پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ کااعلان کیا۔ اب تک قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جتنے بھی فیصلے سامنے آئے اُن میں سے کوئی ایک بھی آئین وقانون سے ہٹ کرنہیں حالانکہ چیف جسٹس ثاقب نثارسے لے کر چیف جسٹس عمرعطابندیال تک آنے والے اکثر فیصلے تنقید کی زَدمیں ہی رہے یہاں تک کہ آئین کوری رائٹ کرنے سے بھی دریغ نہیں کیاگیا۔
لاڈلے نے کہا”جس الیکشن کمیشن نے فراڈ الیکشن کروایا، انصاف کے لیے اُسی کے پاس بھیجا جارہا ہے۔ اگراِس فراڈ الیکشن کی تحقیقات ہوجاتی ہیں تو چیف الیکشن کمشنر آرٹیکل 6لگ جائے گا“۔ لاڈلا شائد بھول چکاکہ چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ اُنہی کا انتخاب ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کوئی غیرآئینی وغیرقانونی کام کرنے کوتیار نہیں۔ لاڈلے کو پریشانی تواُس وقت ہوئی جب اُسی کے دَورِحکومت میں ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے سب دَربند کردیئے گئے اور تحریکِ انصاف کو بُری ہزیمت کاسامنا کرنا پڑا۔ اِس کے علاوہ بھی ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن نے عمران خاں کے خلاف فیصلہ دیا۔ اپنے دَورِحکومت میں الیکشن کمیشن کے باربار کہنے کے باوجود تحریکِ انصاف نے اپنی جماعت کے اندرونی الیکشن نہیں کروائے جس پر اُس سے ”بَلے“ کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لاڈلا اور حواری ہروقت الیکشن کمیشن کے خلاف آگ اُگلتے رہتے ہیں۔
لاڈلے نے نہ صرف حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا بلکہ جیل میں بھوک ہڑتال کی دھمکی بھی دے دی۔ اُس نے کہا ”میں 3گھنٹے اندر انتظار کرتا رہا۔ میرے پارٹی رَہنماء باہر کھڑے رہے۔ میں نے دونوں گروپس کو اختلافات ختم کرنے کے لیے جیل بلایا تھا۔ جب مجھ سے لوگوں کوملنے نہیں دیا جائے گاتو اختلافات کیسے ختم ہوں گے۔ جیل میں میرے ساتھ روا سلوک پر بھوک ہڑتال پر جارہا ہوں۔ پارٹی سے مشاورت کے بعد بھوک ہڑتال کی تاریخ کااعلان کروں گا۔ ایک سال ہونے والاہے مجھے چکی میں ٹھہرایا ہوا ہے“۔ جہاں تک حکومت سے مذاکرات کی بات ہے تولاڈلا پہلے کبھی اِس کے لیے تیارتھا نہ اب ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات توکرتا ہے لیکن حکمرانوں کے ساتھ نہیں۔ وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر سے مذاکرات کا خواہشمند ہے لیکن جنرل صاحب اِس کے لیے ہرگز تیار نہیں کیونکہ فوج ”نیوٹرل“ ہوچکی۔ بانی پی ٹی آئی کو غصہ اِس بات پرہے کہ اُس نے اپنی جماعت کے 2متحارب گروپس کوجیل میں بلارکھا تھاتاکہ اُن کے مابین اختلافات کوختم کروا سکے۔ سوال یہ ہے کہ ایک مجرم جوجیل میں سزاکاٹ رہاہو کیا اُس کو اتنی سہولت میسر ہے کہ جب اُس کاجی چاہے جیل میں سیاسی میٹنگ بلاکر بیٹھ رہے۔ اگر ایساہی ہے اور آئین وقانون اِس کی اجازت دیتاہے توپھر ہرقیدی کویہ سہولت میسر ہونی چاہیے کیونکہ جمہوری اصول تویہی ہے۔ اُس نے کہاکہ اُسے چکی میں بند کیاہوا ہے جہاں سخت گرمی ہے۔ حقیقت مگر یہ کہ جتنی سہولیات لاڈلے کوجیل میں میسر ہیں اُتنی کبھی کسی قیدی کومیسر نہیں ہوئیں۔ جیل کی 7بیرکیں اُس کے استعمال میں ہیں۔ 2بیرکوں کی درمیانی دیوار توڑکر اُس کی رہائش کا بندوبست کیاگیا ہے۔ 2بیرکوں میں اُس کی ورزش کا سامان ہے اور باقی جگہ چہل قدمی کے لیے ہے۔ یہ بجاکہ اِس وقت پاکستان میں شدید گرمی ہے لیکن کیا بانی پی ٹی آئی کو واشنگٹن ڈی سی کاوہ خطاب یادہے جب اُس نے انتہائی رعونت سے کہاتھا کہ وہ پاکستان جاکر جیل میں بند میاں نوازشریف کے گھرکا کھانا بند کروائے گا اور کمرے سے اے سی اُتروائے گا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ میاں نوازشریف دل کے مریض ہیں اور اُن کا بائی پاس بھی ہوچکا۔ آج مرکز میں میاں نوازشریف کے بھائی اور پنجاب میں اُن کی بیٹی کی حکومت ہے لیکن اُنہوں نے کبھی انتقام لینے کی بات نہیں کی۔ (امریکہ سے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button