دادبیداد…شہدائے پولیس…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے“ پولیس کے شہدا نے قوم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور اپنا فرض منصبی نبھاتے ہوئے جان دی ہے اس لئے وہ خاص طورپر ہماری توجہ کے حقدار ہیں، امن و امان کی خاطر جہاں سپاہیوں نے شہادت پائی وہاں افیسروں نے بھی جام شہادت نوش کیاآج پولیس کے شہداء کی یاد آتی ہے تو بے شمار واقعات اور حادثات کی تصاویر ذہن کی سکرین پر نمودار ہوتے ہیں وہ ایک سپاہی تھا، بینک کی سیکیورٹی پر مامور تھا، ڈاکووں کی فائرنگ سے شہید ہوایہ ایک انسپکٹر تھاقتل کے مقدمے کی تفتیش پر مامور تھا، قاتلوں کے گینک نے ان کو خاک اور خون میں نہلادیا تاکہ دوسرا کوئی بھی افیسر تفتیش کی ہمت اورجرءت نہ کرے، وہ ایک ڈی آئی جی تھا مذہبی عبادت گاہ کی سیکیورٹی چیک کررہا تھا قانون شکن گروہ نے خود کش دھماکہ کر کے اُس کو شہید کر دیا سینکڑوں واقعات اور حادثات ہوئے ہرواقعے اور ہرحادثے میں قانون توڑ نے والوں نے قانون کے رکھوالوں پر حملے کئے وجہ ایک ہی تھی کہ قانون توڑنے والوں کو آزادی ملنی چاہئیے جب تک پولیس پروارنہ کی جائے قانون کا بول بالاہی رہے گاقانون کی عملداری کو ختم کرنے اور قانون شکن عناصر کی من مانی کو راستہ دینے کےلئے پولیس کو راستے سے ہٹانا ملک دشمنوں کا بڑا مشن ہے، ہم نے گذشتہ 25سالوں میں بارہا دیکھا ہے جہاں بڑی واردات ڈالنا مقصود تھا وہاں پولیس کو پیچھے دھکیل دیاگیا، پھر واردات کی راہ ہموار ہو ئی 30جنوری 2023کو پشاور کی پو لیس لائن مسجد میں عین نماز کے دوران خو دکش دھماکے سے 59جوانوں اور افیسروں کو شہید کیا گیا گویا ملک دشمن عناصر نے ایک ایک کر کے قانون کے محافظوں کو راستے سے ہٹانے کے بجائے ایک ہی وار میں سب کو خون میں نہلایا، گذشتہ 25سالوں میں قانون توڑ نے والوں کے خلا ف پولیس کی جرءت مندانہ تفتیش اوراپریشن کاریکارڈ چیک کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پو لیس نے 95فیصد وارداتوں کا درست سراغ لگالیا ہے اور 80فیصد مقدمات میں مجرموں کو گرفتار بھی کرلیا ہے، مقدمہ عدالت میں لگنے کے بعد ملک بھر کے قانون شکن گروہوں کو متحرک کرکے مجرموں کو چھڑا لیا جاتا ہے، یہی مجرم چھوٹ جا نے کے بعد پہلا وار پولیس پرہی کرتے ہیں کئی ہائی پروفائل مقدمات میں مجرموں نے اخبارنویسوں کو بتایا کہ اس سے پہلے سات بار یا آٹھ بار قتل اور ڈکیتی کے مقدمات میں گرفتار ہوئے تھے سال دوسال جیل میں گذار نے کے بعد رہا کر دئیے گئے مطلب یہ ہوا کہ مجرم کو رہا کر وانے والا گرفتار کرنے والوں سے زیادہ طاقتور ہے اس تصورسے قانون کی حکمرانی کو سب سے بڑادھچکا لگادیاگیاہے،ملک دشمنوں اورقانون شکن عناصرکو پولیس کے خلاف 2001ء میں بڑی کامیابی ملگئی جب پولیس ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے پولیس کو کمزور کر دیا گیا، اس کے بعد پے درپے واقعات ہوئے، اسلام آباد کی شاہراہ دستور سے پولیس نے جو لائی 2006ء میں اسلحہ کی بڑی مقدار پکڑی جو پولیس کی تحویل سے واپس لیکر نامزد ملزموں کو دے دی گئی اس کے بعد جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے اندوہناک واقعات ہوئے، اسی طرح شاہ ڈھیری، خوازہ خیلہ اور پیوچار سوات کو جا نے والا بھا ری اسلحہ پو لیس نے پکڑ لیا تھا اگر وہاں سے پو لیس کو پسپا نہ کیا جاتا تو سوات کے وحشتناک واقعات نہ ہو تے، 26نو مبر 2011کو سلالہ چیک پوسٹ پربڑا حملہ ہوا جس میں 24فوجی شہید ہوئے، ہم نے مہمند ایجنسی کے ایک بوڑھے اور جہاندیدہ خاصہ دار سے اس کی وجہ پو چھی تو خاصہ دار نے کہا ہماری سرحدات کا پرانا نظام اچھا تھا پو لیٹکل محرر یا تحصیلدار کسی مشرکو ساتھ لیکر سرحد پار مذاکرات کر کے مسئلہ آسانی سے حل کرتاتھا جب سے سرحدی معاملات اجنبی افیسروں کے سپرد کئے گئے ہیں، دونوں طرف سے بداعتمادی میں اضافہ ہوا ہے خاصہ دار کی بات میں وزن بھی ہے درد اور کرب کا احساس بھی نظر آتا ہے ملک میں قانون کی حکمرانی دوبارہ بحال کرنے کے لئے پولیس کو 2001سے پہلے کے اختیارات ملنے چاہئیں قانون شکنی کے مقدمات میں