چترال کے بارڈر ایریاز میں معدنیات نکالنے کے لئے ورکنگ این او سی کی شرط کو فوری طور پر ختم کیا،چترال مائنز اینڈ منرل ایسوسی ایشن کاپریس کانفرنس
چترال (نمائندہ) چترال مائنز اینڈ منرل ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ لیاقت علی اور دوسرے عہدیداربشیر احمد خان، اشفاق علی خان، نعیم الدین، محمد رفیع اور لیگل ایڈوائزر سید برہان شاہ ایڈوکیٹ نے حکومت خیبر پختونخوا اورکور کمانڈر پشاور سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ چترال کے بارڈر ایریاز میں معدنیات نکالنے کے لئے ورکنگ این او سی کی شرط کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ضلعے کے اندر ونی علاقوں میں معدنیات کے سائٹوں کے لئے ایک وقت میں 25کلوگرام ایکسپلوسوز (بارود) سپلائی کیا جائے تاکہ معدنیات نکالنے کا کام جاری رہ سکے جبکہ اس وقت ایک وقت میں صرف 5کلوگرام کی اجازت ہے جوکہ قطعاً ناکافی ہے۔ بدھ کے روز چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سیکورٹی کے نام پر ارسون سمیت دیگر بارڈر ایریاز میں سیکورٹی کے نام پر ورکنگ این او سی کی شرط عائد کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے کیونکہ چترال ہمیشہ پرامن رہا ہے اور افغانستان میں 40سالہ جنگ کے دوران بھی یہاں امن وامان کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔ا نہوں نے کہاکہ اس وقت چترال بارڈ ر سے ملحق افغان علاقے میں مائننگ کا کاروبار جاری وساری ہے جہاں چائینز سرمایہ کار کروڑوں ڈالر کا سرمایہ لگاچکے ہیں اور خود مائننگ کی نگرانی بھی کررہے ہیں جبکہ چترال میں سیکورٹی رسک کے نام پر بارود کے لئے لائسنس (ای ایل۔4) کی تجدید نہیں کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مائننگ کا کام بند ہونے پر علاقے میں بے روزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے کیونکہ ہزارو ں افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اس کاروبار کے ساتھ وابستہ تھے جبکہ حکومت کے خزانے میں کروڑوں روپے بھی جمع ہوتی تھی۔ انہوں نے کہاکہ چترال کی تاریخ میں کبھی بھی لیز ہولڈروں کو دئیے گئے بارود افغانستان یا ملک کے دوسرے حصے میں سمگل ہونے کا واقعہ پیش نہیں آیا تو ایسے حالات میں سیکورٹی کا بہانہ کرکے مائننگ پر پابندی لگانا، باروڈ کا کوٹہ ہفتہ وار سپلائی کرنے کی بجائے روزانہ کا کوٹہ مقررکرنا سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں چترال کے علاوہ کسی بھی دوسرے ضلعے میں ورکنگ این اوسی کا شرط لاگو نہیں ہے۔ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہاکہ اس غیر ضروری پابندی کی وجہ سے لیز ہولڈروں کو روزانہ کے حساب سے ناقابل تلافی نقصان لاحق ہورہا ہے کیونکہ وہ اپنے لیبروں کو تنخواہ اور کرائے پر لئے گئے مشینریوں کا کرایہ باقاعدگی سے ادا کرنے پرمجبور ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چترال کے اندر 183مقامات پر مائننگ کے لئے لائسنس جاری کئے گئے ہیں لیکن ان میں سے صرف 12سائٹوں پرکام جاری ہے جبکہ ان سب میں کام جاری ہونے پر چترال میں غربت میں کمی آئے گی اور خوشحالی کا دور شروع ہوگا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہاکہ صرف شوغورمیں مائننگ کے سائٹ پر 300مزدور کام کررہے تھے جہاں کام کی بندش سے یہ سارے بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے ضلعی انتظامیہ اور عسکری قیادت سے دردمندانہ اپیل کردی کہ چترال میں زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے معدنیات کی مائننگ سے پابندی ہٹادی جائے، ورکنگ این او سی کا شرط ختم کیا جائے اور بارود کی سپلائی کا پرانا طریقہ کا ر بحال کیا جائے۔