276

محاسن و کمالات کا پیکر قاری عبدالغفارچترالی رحمۃ اللہ علیہ ایک عہد ساز شخصیت…….حافظ نصیر اللہ منصور چترالی

اللہ تعالی نے کتنی خوبیاں ان میں ودیعت کی ہوئیں تھیں کتنا نرالا انسان تھا ۔بلند ہمتی ،ذاتی مفادا ت سے ما وراء ، درویشوں کا ہم نشین ،فکرو نظر اور جہد و عمل کا پیکر ،استقامت کا پہاڑ ایک فقیر منش عہد ساز شخصیت جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے الفاظ چھوٹے محسوس ہونے لگیں گے ۔زندگی بھر بلند آہنگ حوصلوں کے ساتھ دینی ،سماجی اور معاشرتی کارنامے انجام دیتے رہے۔ تعلیم کا میدان ہو یا سیاست کی بساط ،یہ مردمجاہد اور مٹی کا پیکر ان تمام محاسن کا آئینہ دار ہو کر دور حاضر کے تمام چیلنجوں کے روبرو اپنی تمام تر شدتوں کے ساتھ بر سر پیکار رہے۔ جلالی طبیعت کا مالک یہ مرد مجاہد ،یاد گار اسلاف بروز اتوار اس جہان فانی سے ایسے کوچ کر گئے کہ دینی علوم و فنون کے پروانے کھلے آسمان تلے حیران و ششدر رہ گئے ۔ یہ سانحہ ایک عام عالمِ دین کی وفات کا نہیں تھا بلکہ ایک ایسے مرد مومن کے مجاہدانہ کارناموں اور علمی ،دینی ،ملی ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں سے معمور داستان حیات کے اختتام کا سانحہ تھاجو گلشن چترال کے لئے ایک کھلا ہوا اور مہکتا پھول تھا جس کی خوشبو نہ صرف اندرون چترا ل بلکہ پورے پاکستان میں پھیلتی جارہی تھی چمن سے مرجھا گیا ۔
کسی کے جانے سے کوئی ایک آنکھ آشکبار ہوتی ہے اور کسی کے جانے سے ایک جہاں روتاہے جس کے بچھڑنے سے ہر طرف حزن وملال،آہ وفغان ہو، قرآن کے پڑھنے اور پڑھانے والے علماء ،اتقیاء حفاظ ،قرأ ہر طرف رو رہے ہیں اور آنکھیں اس کے تذکرہ جمیلہ سے برستی رہیں گی وہ ہم سب کے محبوب حضرت مولانا قاری عبد الغفار چترالی تھے جن کی وفات سے ہر زبان یہ کہنے پر حق بجانب ہے کہ ’’موت العالم موت العالم ‘‘
قاری صاحب غالبا آج سے ساٹھ سال قبل1956 ء میں چترال سے نوے کلومیٹر دور مداک نامی بستی کے ایک متمول دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد علوم دینیہ کی پیاس بجھانے کی خاطر پشاور پہنچے جہاں کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور کے ایک دینی ادارہ جامعہ مدنیہ سے سند فراغت حاصل کی ۔اس سے قبل مدرسہ تجوید القرآن موتی بازار لاہور میں ملک کے نامور قاری جناب قاری اظہار احمد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے تجوید پڑھی ۔ایک جید عالم دین ہونے کی حیثیت سے لاہو رکے مختلف مدارس میں علوم قرآنی کی تدریس کرتے رہے اس دوران قاری صاحب نے چترال کی پسماندگی اور دینی مدارس کی قلت اور علوم قرآن کے پیاسوں کی پیاس بجھانے کی خاطر جامعہ محمد یہ کے قیام کا فیصلہ کیا اور لاہور کے مرکزی علاقہ بلال گنج جو کہ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کی مزار کے عقب میں واقع ہے تعلیم القرآن کے لئے ایک درسگا ہ کی بنیاد ڈالی جہاں سے حضرت قاری صاحب کے ہزاروں تلامذہ فیضیاب ہوئے اور آج جس کی تین بڑی بڑی شاخین تعلیم القرآن کی خدمت میں مصروف ہیں۔اور ہزاروں چترال اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے طلباء کے قیام و طعام کا انتظام اور ان کی تعلیم وتربیت کی نگرانی حضرت قاری صاحب خود کرتے تھے ۔اس وقت تقریبا تین سو سے زائد طلباء اس ادارے میں زیر تعلیم ہیں ۔
قاری صاحب جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنماؤں میں سے تھے اور اپنے علاقے کے ایک معتبر دینی اورسماجی شخصیت تھے اور مسلم لیگ ن کے مرکز لاہور میں جمعیت کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا، بھر پور مقابلہ کیا ۔اپنی سیاسی کیرئیر کے دوران مشرف دور میں یوسی تریچ کے پانچ سال تک ناظم رہے اور اپنے علاقے کی بھر پور خدمت کی۔ 2013 ء کے الیکشن میں بھی ایک مرتبہ پھر لاہور سے جمعیت کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور مسلم لیگ ن کا بھر پور مقابلہ کیا ۔
1996 ء میں جب میں پہلی بار لاہور آیا تو یہاں چترال سے تعلق رکھنے والے چار ایسی شخصیات موجود تھیں جنہیں لیڈر شپ کا ممتاز مقام حاصل تھا۔ مولانا سیف الرحمن ،مولانا محمد انس رحمۃ اللہ علیہ،قاری مقبو ل احمد اور مولانا قاری عبد الغفار چترال رحمۃ اللہ علیہ لاہور میں چترالی طلباء اور علماء کی سر پرستی کرتے رہے ۔چترال سے آنے والا ہر شخص ان کے ہاں مہمانی کا شرف حاصل کرتا ۔ لاہور میں ہونے والے مختلف پروگراموں کی صدارت کرنے والوں میں قاری صاحب کا نام سر فہرست تھا۔ممتاز اور معتدل عالم دین ہونے کے ناطے ہر طبقے کے لوگوں کے لئے یکساں اور قابل قبول انسان تھے
چترال میں دینی مدارس کا جال بچھانے میں بھی حضرت موصوف کا بڑا ہاتھ ہے جس کی سرپرستی میں چترال کے کئی دیہات میں دینی مدارس علوم دینیہ کی تکمیل کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ علوم نبویہ کا یہ روشن شمع مورخہ اٹھ اگست بروز اتوار صبح اٹھ بجے حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے خالق حقیقی سے جاملے ۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
قاری صاحب کا انتقال ایسے وقت میں ہو ا کہ اسی روز مغرب کی نماز کے بعد جامعہ محمدیہ کی برانچ مدرسہ للبنات کا افتتاح ہونے والا تھا جس میں کئی افراد کو دعوتی لیٹر بھی جاری کر دئے گئے تھے لیکن منشاء خداوندی کچھ اس طرح تھا کہ اسی روز بعد نماز مغر ب حضرت قاری کو رخصت کرنے غالبا بائیس ہزار لوگوں کا مجمع جامعہ محمد یہ میں اکھٹا ہو گیا ۔ جنازے میں تقریبا 22 ہزار افراد نے شرکت کی ۔نماز جنازہ استاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور مولانا عبدالرحیم نے پڑھائی ۔جنازے میں جمعیت علمائے اسلام کے قائمقام سیکریٹری جنرل مولانا امجد خان ،تحریک ختم نبوت کے رہنما مولانا محب النبی ،مولانا فیاض الدین استاد الحدیث جامعہ اشرفیہ،مولاناریاض درانی، نوائے چترال گروپ کے اراکین کے علاوہ بڑی تعداد میں علماء اور طلباء نے شرکت کی ۔قاری صاحب کے لواحقین میں چار بھائی پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنے فضل سے ان کا نعم البدل عطا فرمائیں۔ ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔ اور ان کے صاحب زادگان کو ان کا حقیقی جانشین او ران کی فکر کا امین بنائیں ۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں