398

سارے باطل خداؤں کا ردـ ـ ـ ـ ـ محمد صابر گولدور چترال 

وہ جمعہ کا دن تھا صبح سویرے کام کی جگہ جانے سے پہلے میں نے نماز جمعہ کےلیے طہارت و صفائی کا اہتمام کیا اور صاف ستہرے کپڑے زیب تن کیے  اور کام کی جگہ کی جانب حسب معمول روانہ ہوگیا ـ  جمعے کا دن عام دنوں سے قدرے مختلف ہوتا ہے اور اس دن کی ہیبت باقی دنوں پر بھاری معلوم ہوتا ہے ـ بہرحال چونکہ سردیوں میں دن چھوٹے اور راتیں طویل ہوا کرتی ہیں تو وقت کا پتہ ہی نہ چلا ـ جب میں نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کےلیے تقریبا ایک گھینٹہ رہ گیا ہے ـ میں کام کی جگہ سے واپس سیدھا  گھر آیا اور کھانا کھانے کے بعد محلے کی جامع مسجد کی جانب چل پڑا ـ راستے میں ہر کوئی مسجد کی جانب رواں دواں تھا عام دنوں کی نسبت جمعے والے دن ہر ایک مسلمان اس کوشش میں ہوتا ہے کہ اس کا بدن پاک ہو اس کے کپڑے صاف ہو اور وہ مسجد جائے اور باجماعت نماز ادا کرے  ـ  بہرحال میرے مسجد جاتے ہوئے ایک دوست بھی ساتھ ہو لیا ہم جامع مسجد پہنچ گئے ـ ہم مسجد تھوڑا لیٹ پہنچے مگر جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ مسجد کا اندرونی حصہ نمازیوں سے کھچا کھچ بھرا ہے ـ  مسجد کے اندرونی حصے کے آخری صفحے  میں  ہمیں جگہ جگہ ملا ـ  پیش امام صاحب خطبہ دے رہے تھے مسجد میں ہر طرف سکوت ہی سکوت تھا ـ  مسجد پہنچتے ہی ایک عجیب  و غریب سی کیفیت مجھ پر طاری ہوئی جو بیان سے قاصر ہے ـ یوں تو پانچ وقت نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنا ضروری ہے  اور ہم کسی حد تک اس کی پابندی بھی کرتے ہیں مگر اس دن کی کیفیت کچھ اور ہی تھی ـ خطبہ ختم ہوتے ہی نماز کےلیے صف بندی کرنے کے بعد جب امام صاحب نے الله اکبر کی صدا بلند کی تو دل پر جب نام الله کی ضرب لگی تو ایک لمحے کےلیے میرا دل گویا رک سا گیا ـ قرآن پاک کی تلاوت نے مزید میرے دل کو اپنے جودوئی سحر میں جکڑ لیا ـ  پھر رکوع اور پھر جب میں نےسجدے میں اپنا سر رکھا تو میرا دل موم کی طرح پگھل سا گیا ـ میرے آنکھوں میں آنسو بھر آئے  حالت سجدہ میں میں  نے اپنے جبیں کو اس ذات بابرکات کے قدموں کے بیچ رکھ کر  اپنی آنکھوں کو نم پایا اچانکہ ہی چند الفاظ

  ” جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا ـ ـ ـ

 تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں “

میرے دل و دماغ پر حاوی ہونے لگے بار بار مجھے ستانے لگے فورا ہی میں نے اپنے خیالات کو دل و دماغ سے دور کرکے اپنے خیالات کو نماز تک محدود کرلیا ـ  سب مسلمانوں نے ایک ساتھ سلام پھیرا اور آخر میں اپنے لیے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کی خیر خیریت اور امت مسلمہ کےلیے دعا مانگا ـ

کبھی ہم نے غور کیا ہے کیا ہم کامل ایمان والے ہیں ـ وہ کون کونسی برائیاں ہیں جو ہم میں نہیں ـ اپنی پیشانی تو بظاہر اسی کے سامنے جھکاتے ہیں مگر حقیقت میں ہزاروں  لاکھوں صنم دلوں میں پال رکھے ہوئے ہیں ـ سجدہ اس ایک زات کو کرتے ہیں مگر ابلیس سے یارانہ بھی ـ  نہ جانے کتنے  ہی طاغوت ہمارے دلوں میں بسے ہیں جن کی خوشی کی خاطر ہم اپنے رب کو ناراض کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہم میں ہزاروں خواہشیں ایسی ہیں جن کو معود بنالیا ہے ان خواہشوں کی تکمیل کےلیے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں ـ ہم یہ کیوں بھول بیٹھے ہیں کہ زندگی کا کوئی مقصد بھی ہے اور وہ مقصد کیا ہے ؟ کبھی سوچا ہے ہم نے کہ

” میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی ـ ـ ـ

میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی “

واقی ہمیں کچھ بھی نہیں ملے گا ایسی نمازوں سے اگر دل صنم آشنا ہو ـ  دو رنگی نہ ہی دنیا میں کام آئے گی اور نہ ہی آخرت میں انسان کو یک رنگی ہونا چاہئے ـ  انسان کے قول و فعل میں تضاد اس کی شخصیت پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے انسان کو اپنے قول و فعل میں یکسانیت لازمی طور پہ لانی چاہئے ـ تمام تر منکرات و واہیات سے دور رہنا خود کو ظاہری و باطنی دونوں لحاظ سے پاک و صاف رکھنا لازمی امر ہے ـ ایک دل میں ایمان ، نیکی کا جذبہ عقیدہ آخرت بمقابلہ  طاغوت ، خواہشات اور ظلم و کفر ایک ساتھ کبھی بھی نہیں ٹک سکتے ہیں ـ

  آج میں اس دن کا سوچتا ہوں تو وہ کیفیت میرے لیے واقی میں معمولی بات نہیں تھی بلکہ اس واقعے میں  میرے لیے ایک پیغام تھا جو نے پا لیا ـ

چوں می گویم مسلمانم بلرزم

کہ دانم مشکلات ” لا الہ ” را !

(علام اقبال)

 میں خود کو مسلمان کہتے ہوئے کانپ جاتا ہوں ـ کیونکہ مجھے “لا الہ ” کی مشکلات کا بخوبی علم ہے ـ مجھے معلوم ہے لا الہٰ کہنےکے بعد کیسی کیسی مشکلات سامنے آنے والی ہیں-

لا الہٰ کہ کے میں دنیا کے سارے باطل خداؤں کو رد کر رہا ہوں. مجھے معلوم ہے کہ کون کون سے زمداریاں مجھ پر عائد ہوتی ہیں -مجھے کیسے کیسے مرحلوں سے گزرنا ہے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں