272

امیرجماعت اسلامی سراج الحق کی للکار۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

ایک طرف تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پانامہ لیکس کو بنیادبناکرنوازشریف کا وزارت عظمیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے یاپھر خود کواحتساب کے لئے پیش کرنے کامطالبہ لئے 2 نومبرکوشہراقتداراسلام آباد بند کرانے کااعلان کرچکے ہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی اورجمعیت علائے اسلام ف جیسی مذہبی جماعتیں بھی بڑے بڑے اجتماعات کی صورت میں سیاسی قوت کامظاہرہ کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔اضاخیل نوشہرہ میں جماعت اسلامی خیبرپختونخواکااجتماع اور فیصل آباد میں جے یوآئی ف کے جلسے میں عوام کے جم غفیر کودیکھتے ہوئے یہ تووثوق سے نہیں کہاجاسکتاکہ عمران خان 2نومبرکواسلام آباد بند کرانے میں کامیاب ہوں گے کہ نہیں البتہ یہ کہناغلط نہیں ہوگا کہ مذہبی جماعتیں سڑکوں پر آکر ملک بھر کوبندکراسکتے ہیں۔اضاخیل نوشہرہ میں جماعت اسلامی کامنعقدہ دوروزہ اجتماع عام جوکہ 23اکتوبرکواختتام پذیرہوگیاہے اگرچہ ایک کروڑافراد کامجمع نہیں تھاجیسا کہ اجتماع عام سے قبل جماعت اسلامی کی قیادت ایک کروڑافرادکودعوت دینے کادعویٰ کررہی تھی اور اندازے یہ لگائے جارہے تھے کہ کروڑنہ سہی30 لاکھ افرادتوجمع ہوں گے مگراس کے باوجودیہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ جماعت اسلامی کایہ اجتماع عام خیبرپختونخوامیں اب تک کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت کی جانب سے غیرمعمولی سرگرمی کامظاہرہ تھا جس کے بظاہراوردرپردہ مقاصد واضح طورپرسیاسی تھے اوراجتماع سے قبل بھی جماعت اسلامی کے قائدین کاکہنایہی تھاکہ خطے کے بدلتے اوربنتے ٹوٹتے سیاسی حالات کے پیش نظراس سرگرمی کامقصد پارٹی ورکرزکوعصری چیلنجزکامقابلہ کرنے ،انہیں اگلے الیکشن کامرحلہ کامیابی سے سر کرنے اور بعدازاں اسلامی نظام کے نفاذکے لئے روڈمیپ دے کرمتحرک بناناہے ۔یہ اجتماع جہاں جماعت اسلامی کے سیاسی وجود کے لئے بہترین غذاثابت ہواوہیں بہت سارے سوالات بھی چھوڑگیاہے جن کے جوابات فی الوقت ملناتوممکن نہیں البتہ سیاسی امور کے ماہرین کے نزدیک تعلیمی نصاب میں کی گئی تبدیلی ،اردو کوسرکاری ودفتری زبان نہ بنانے کی صورت میں حکومت چھوڑنے کی دھمکی اور سیکولرازم کے خلاف ہرزہ سرائی کرناجماعت اسلامی کی جانب سے وہ واضح اشارے ہیں جن کوبنیادبناکروہ خیبرپختونخواکے حکومتی مدارسے نکل سکتی ہے جیساکہ اجتماع سے دوران خطاب جماعت اسلامی کے مرکزی امیرسینیٹر سراج الحق نے خیبرپختونخواحکومت میں شامل اپنے وزراء کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ وہ صوبے میں پرائمری سکولوں کی سطح پراسلامیات کے معلم کی اسامی بحال کرنے اور اردوکودفتری زبان کے طورپر رائج کرائیں اوراگر خیبرپختونخواحکومت ایسانہیں کرتی تو حکومت چھوڑدیں کیونکہ حکومت میں رہناہماری کوئی مجبوری نہیں ہے تاہم ایساجلد ہوگایابدیریہ اندازہ لگانامشکل ہے ۔اجتماع عام سے دوران خطاب مزید لب کشائی کرتے ہوئے سراج الحق کاکہناتھاکہ فلاح انسانیت کانظام چاہتے ہیں، ہماری قوم نے 70سالوں کے دوران سوشلزم، نیشنلزم،سیکولرازم اور مادرپدرآزاد جمہوریت کو آزمایااور پھران کے نتائج بھی بھگتے مگراب ایسانہیں ہوگا ہم مزید کسی کوقوم کااستحصال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اوریہاں پراسلامی انقلاب لائیں گے، خیبرپختونخوا اور قبائل کے لاکھوں مردوزن انقلاب کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، آئندہ اسمبلی کی رکنیت کے خواہشمندوں کوبہنوں اور بیویوں کوجائیدادمیں حق دینے کاسرٹیفیکیٹ لاناہوگا،قوم کی نظریں پانامہ لیکس معاملے میں سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں،انہوں نے حکمران طبقہ کو تنقید کانشانہ بنایااور کہاکہ ملک میں قابض ٹولے نے قرضے لے کرپوری قوم کو مقروض بنادیاہے جبکہ خارجہ پالیسی کویکسر مسترد کرتے ہیں اوراگلے الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں۔سراج الحق نے سندھ اور بلوچستان کی محرومی کی بھی نشاندہی کی اورکہاکہ وہاں ترقی نہ ہونے کی وجہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے، الزام لگاتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ وزیراعظم جہاں جاتے ہیں قومی وسائل کورشوت کے طورپر استعمال کرتے ہیں،سراج الحق نے حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہاکہ بھارتی حکومت کبوتروں سے اورہمارے حکمراں بھارت سے ڈرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مودی کوگریباں سے پکڑنے کی بجائے حکمرانوں نے اسے تخت لاہوربلاکر سری پائے کھلائے اور آموں کے تحفے دیئے، جماعت اسلامی کے سربراہ نے نہ صرف یہ اعلان کیاکہ خیبرپختونخوامیں آئندہ اسلامی حکومت قائم ہوگی بلکہ اس نکتے کی بھی نشاندہی کی کہ قائداعظم محمد علی جناح نے 114باراپنی تقریروں میں پاکستان کے مستقبل کواسلام سے وابستہ کیاتھا۔جماعت اسلامی کے اجتماع کی تعریف کرنااورسراج الحق کے اعلانات پر تالیاں بجانااپنی جگہ مگر اٹھتے ان سوالوں کے جواب جماعت اسلامی نے قوم کودینے ہوں گے کہ آج سیکولرازم کے خلاف ہرزہ کرتی یہ جماعت پی ٹی آئی جیسی رشن خیال جماعت کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل کیوں ہوئی تھی،یہ بھی کہ آج تعلیمی نصاب میں ترمیم کی بنیادپرحکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دینے والی جماعت اسلامی نے اس وقت حکومت سے الگ ہونے کادوٹوک فیصلہ کیوں نہیں کیاتھا جب صوبائی حکومت کی تشکیل کے بعد اس سے وزارت تعلیم کاقلمدان واپس لیاجا رہاتھاجبکہ قابل ذکر یہ بھی کہ جماعت اسلامی نے جن شرائط پر وزارت تعلیم چھوڑدی تھی ان پر کہاں تک عملدرآمد ہوا اوراگر نہیں ہواتو توپھر سراج الحق کایہ کہناکیسے درست ہوسکتاہے کہ حکومت میں رہناان کی مجبوری نہیں۔ اگرچہ اجتماع عام سے قبل جماعت اسلامی کی قیادت ترکی کے صدرطیب رجب اردگان،امام کعبہ، بین الاقوامی مذہبی سکالرزسمیت ملکی سطح پر سیاسی جماعتوں کے قائدین اورمنتخب ممبران اسمبلی پرمشتمل ایک کروڑافرادکودعوت نامے دینے کادعویٰ کررہی تھی گوکہایساتونہیں ہوا البتہ کئی مذہبی اورسیاسی جماعتوں کے قائدین اورمنتخب عوامی نمائندوں سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی کئی معتبر شخصیات نے اس اجتماع عام میں خصوصی شرکت کرکے بادی النظرمیں جماعت اسلامی کی کوششوں اور کاوشوں کو سراہنے کی سعی ضرورکی ہے جن میں وزیراعلیٰ پرویزخٹک ،سپیکرخیبر پختونخوا اسمبلی اسدقیصر،قومی وطن پارٹی خیبرپختونخواکے صدراورسینئر صوبائی سکندرخان شیرپاؤ، جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی امیر سابق سینیٹرمولاناگل نصیب خان اورپیپلزپارٹی کے سینیٹراحمد حسن خان قابل ذکرتھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں