Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

مارو یا مَر جاؤ Do or die ۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

ہم نے تو پکّا ارادہ کر لیا تھا کہ اِ س بار کپتان صاحب کی ’’سونامی‘‘ کا حصّہ ضرور بنیں گے۔ اِس کے لیے ہم نے بھرپور تیاریاں بھی کر رکھی تھیں اور کپتان صاحب کے اعلان کے مطابق آٹھ دنوں کے راشن کی ’’پوٹلی‘‘ بھی باندھ لی تھی لیکن ہمارے سارے خواب ادھورے رہ گئے اور نوازلیگ نے ہماری توقعات کے بَرعکس رنگ میں بھنگ ڈال دیا ۔27 اکتوبر کی ’’پھینٹی‘‘ اور پکڑدھکڑ کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ 2 نومبر کو میوزیکل کنسرٹ ہوگا یا ’’کھُنّے سیک‘‘ پروگرام۔ 27 اور 28 اکتوبر کو نوازلیگ نے جو ’’ٹریلر‘‘ چلایا، سچّی بات ہے اُسے دیکھ کر ہمارے حوصلے تو پست ہو گئے۔ نوازلیگ نے نہ صرف ہمارے معصوم سونامیوں کو ’’پھینٹی‘‘ لگائی بلکہ جیلوں میں بھی ٹھونس دیا۔ لگتا ہے یہ ساری شرارت مولانا فضل الرحمٰن کی ہے، جنہوں نے کہا کہ سونامیے اسلام آبادکی ٹھنڈی زمین پر ناچ گانے کے لیے آتے ہیں، زمین گرم کر دیں ،یہ خود ہی بھاگ جائیں گے اور عمران خاں اکیلا رہ جائے گا۔ نوازلیگ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ،مولانا صاحب کی ہدایت پر من وعَن عمل کر دیا۔ آخری خبریں آنے تک صرف اسلام آباد ہی نہیں ،راولپنڈی کی زمین بھی گرماگرم ۔
پتہ نہیں مولانا صاحب کو یہ کہاں سے پتہ چلا کہ ہمارے سونامیے بڑے نرم ونازک ہوتے ہیں۔ وہ تو دو دِن گھر کی پکی روٹی کھا لیں تو بیمار پڑ جاتے ہیں ۔ اسی لیے بَرگر اور پیزا پر ہی گزارا کرتے ہیں، طَوہاََ وکَرہاََ پانی بھی منرل پیتے ہیں کیونکہ عام پانی سے اُن کا معدہ خراب ہو جاتاہے۔ ایسے میں بھلا اُن پر آنسو گیس کی بارش کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ظلم نہیں بلکہ ظلمِ عظیم ہے۔ لیکن میاں برادران کو بھلا اِس سے کیا،وہ تو Do or die پہ چل نکلے ہیں۔حیرت ہے کہ میاں برادران نے ساڑھے تین سال تک کیسے صبر کر لیا۔ وہ تو چند گھنٹے بھی کسی کو خوش ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ اگر ہمارے نازک اندام سونامیے اور سونامیاں مفت کے میوزیکل کنسرٹ پر تھوڑا بہت ’’تھِرک‘‘ لیتے تھے تو اُن کا کیا جاتا تھالیکن رنگ میں بھنگ ڈالنا تو میاں برادران کی پرانی عادت ہے اسی لیے تو ہمارے کپتان صاحب نے اُنہیں’’ سکیورٹی رِسک‘‘ قرار دیا ہے۔ ۔۔۔ اُدھر نوازلیگ کے ایک وزیرِ با تدبیر خواجہ سعدرفیق ہیں جنہوں نے پاکستان ریلوے کو تھوڑا بہت بہتر کیا کر لیا ،اب ہر جگہ اتراتے پھرتے ہیں۔ اُنہوں نے پریس کانفرنس میں کہہ دیا کہ کپتان صاحب کو گرفتار نہیں کیا جائے گا ۔ وضاحت اِس کی یوں کی ، کیونکہ جیل مینول میں ’’پاؤڈر‘‘ سپلائی کرنے کی گنجائش نہیں اور کپتان صاحب پاؤڈر کے بغیر رہ نہیں سکتے اِس لیے اُنہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ گویا پاؤڈر کی وجہ سے کپتان صاحب گرفتاری سے بال بال بچ گئے۔ اب ہم تو ہر کسی کو یہی مشورہ دیں گے کہ اگر گرفتاری سے بچنا ہے تو پاؤڈر کا استعمال شروع کر دیں۔
ایک ہمارے مشاہداللہ خاں ہیں جو اکثر ’’بَونگیاں‘‘ مارتے رہتے ہیں۔ ایک بَونگی پر تو اُن کی وزارت بھی چھِن گئی پھر بھی وہ باز نہیں آئے۔ اُنہوں نے بھی بیان داغنا ضروری سمجھا۔ فرمایا ’’ عمران خاں کہتے ہیں کہ بنی گالہ میں کھانا نہیں آنے دیا جا رہا۔ ہم نے اُن کا کھانا نہیں روکا لیکن ’’کوکین‘‘ بنی گالہ نہیں آنے دیں گے‘‘۔ بندہ اُن سے پوچھے کہ اگر کسی کو کوکین کی ضرورت ہو تو اِن حالات میں وہ کوکین کا سٹاک پہلے سے کرکے کیوں نہ رکھے گا تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔ اِس لیے ہمارا مشاہداللہ خاں کو مشورہ ہے کہ وہ ’’بَونگیاں‘‘ مارنا چھوڑ کر کبھی کوئی ڈھنگ کی بات بھی کر لیا کریں۔
ہمارے ایک مہربان شیخ رشید صاحب ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ ہر صورت میں لال حویلی میں جلسہ کیا جائے گا لیکن اُن کی یہ بات بھی غلط ثابت ہوگئی۔ لال حویلی پر پہرے بٹھا دیئے گئے اور شیخ صاحب اپنے ہی گھر میں جانے کی ہمت نہ کر سکے۔ ہمارے چیئرمین وقف املاک بورڈصدیق الفاروق صاحب ایک نیا ہی پھڈا ڈال کے بیٹھ گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لال حویلی تو ہے ہی حکومت کی ملکیت اِس لیے شیخ صاحب یا تو 15 کروڑ روپے دیں یا پھر چلتے پھرتے نظر آئیں۔ اب صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے کہ کپتان صاحب کے کندھے پر بندوق رکھ کر شیخ صاحب اپنی دوکانداری چمکاتے چمکاتے لال حویلی سے بھی ہاتھ دھوتے نظر آتے ہیں۔ کہاجا سکتا ہے کہ
خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ایک محاورہ ہے، دھوبی کا ۔۔۔۔۔گھر گھاٹ والا۔ یوں تو یہ محاورہ شیخ صاحب پر ’’فِٹ‘‘ بیٹھتا ہے لیکن ہے ذرا غیرپارلیمانی سا ، اِس لیے اِسے چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ ہم تو شیخ صاحب کو یہی مشورہ دیں گے کہ اگر صدیق الفاروق صاحب لال حویلی پر قابض ہو جاتے ہیں تو وہ چپکے سے لال حویلی ہی کے نیچے پھٹہ لگا کر ’’طوطافال‘‘ شروع کر دیں۔ ہم اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ اِس طوطا فال کمائی سے سال دوسال میں لال، نیلی ،پیلی،جیسی جی چاہے اپنی حویلی بنا سکتے ہیں۔ ہم شیخ صاحب کو یہ مفت مشورہ پہلے بھی 2 بار دے چکے ہیں، پتہ نہیں وہ اِس پر عمل کیوں نہیں کرتے۔
شیخ صاحب لال حویلی تو نہ پہنچ سکے البتہ پتلی گلی سے موٹرسائیکل پر بیٹھ کر کسی کی ’’پھُمن والی‘‘ٹوپی سَر پر پہن کربیمار کا بھیس بنایااور کمیٹی چوک پہنچ گئے۔ موٹر سائیکل والے نے اُنہیں تھوڑی دور ہی اتار دیا کیونکہ آگے کی زمین گرم تھی ۔ پھر شیخ صاحب سڑک پر’’ دُڑکی‘‘ لگاتے دکھائی دیئے۔ دوڑتے دَوڑتے وہ جیونیوز کی ڈی ایس این جی وَین پر چڑھ گئے اور پھر ہانپتے ہوئے سگار سلگا لیا۔ لیگئیے کہتے ہیں کہ وہ بوکھلا کر جیو کی وَین پر چڑھے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ شیخ صاحب نے یہاں بھی عقلمندی کا ثبوت دیا کیونکہ اُنہیں پتہ تھا کہ میڈیا کی وَین پر پولیس حملہ آور نہیں ہوگی ،اسی لیے وہ وین کی چھَت پر چڑھے ،ٹانگیں پسار کر بیٹھے اور سگار سُلگا لیا۔ پھر پانچ سات بڑھکیں ماریں اور اُسی پتلی گلی میں غائب ہوگئے۔
لیگئیے کہتے ہیں کہ کپتان صاحب بنی گالہ میں اپنے گھر سے نکلے ہی نہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ اُنہیں نکلنے نہیں دیا گیا۔ اسی لیے اُنہوں نے شیخ رشید کو پیغام پہنچا دیا کہ وہ اپنی طاقت 2 نومبر کے لیے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں اِس لیے کمیٹی چوک نہیں آئیں گے۔ اِس کا شیخ صاحب کو دُکھ بھی ہوا اور غصّہ بھی بہت آیا۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ تو حسبِ وعدہ کمیٹی چوک پہنچ گئے، اگر خاں صاحب نہیں آئے تو اُن کی مرضی۔۔۔۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہم کپتان صاحب کو آنسو گیس کے سپرد کر دیتے ،تاکہ شیخ صاحب کی بَلّے بَلّے ہو جاتی۔ سونامیوں کو شیخ صاحب کے نام سے ویسے ہی چِڑ ہے اور وہ اُنہیں ’’جُمّاں جنج نال‘‘ سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی آنسو گیس کا سامنا کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت سے نوجوان سونامیے موجود ہیں۔ سب نے دیکھا کہ بنی گالہ میں وہ بار بارپولیس کی آنسو گیس کا سامنا کرتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ لیگیوں کا اِس بارے میں نکتہ نظر کچھ اور ہے۔ لیگئیے کہتے ہیں کہ سونامیے بنی گالہ سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن پولیس اُنہیں بھاگنے نہیں دے رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ 400 سونامیوں نے رات بنی گالہ کی پہاڑی پر بھوکے پیٹ گزاری۔ اسی بنا پر کپتان صاحب نے کہا کہ بنی گالہ میں کھانا بھی نہیں آنے دیا جا رہا۔ ہم حکمرانوں کو کہے دیتے ہیں کہ وہ خوشی سے بغلیں نہ بجائیں کیونکہ ’’ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘۔ مولانا فضل الرحمٰن لاکھ کہیں اور اسلام آباد کی زمین جتنی جی چاہے گرم ہو جائے، سونامیے 2 نومر کو اسلام آباد ضرور پہنچیں گے۔ یہ الگ بات کہ اُن کی تعداد کچھ سُکڑ جائے اور وہ 10 لاکھ سے گھٹ کر 10 ہزار رہ جائے۔ ’’وارم اَپ ریلی‘‘ 29 اکتوبر کو اسی لیے منسوخ کی گئی تاکہ2 نومبر کو سونامیے بھرپور انداز میں اسلام آباد پر حملہ آور ہو سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button