سراج صاحب مرحوم ۔۔مہکتا گلاب

javed
کھبی کھبار زندگی اپنے عارضی اور فانی ہونے کا ایسا یقین دلاتی ہے کہ انسان تھک ہار کے سراپا فریاد بن جاتا ہے ۔۔زندگی کا عارضی پن اس وقت درد دیتا ہے جب کسی اپنے کو ،پیارے کو تم سے چھین کے لے جاتی ہے ۔۔ابو نے ایک بار سوال پوچھا تھا ۔۔۔بیٹا ! تجھے اپنا بوڑھا ہونے کا احساس کب ستاۓگا میں نے کہا تھا ابو ! داڑھی میں چاندنی آۓ گی اور ستاۓگی ۔۔تبسم فرما کر کہا تھا ۔۔نہیں ۔۔زندگی میں ایک مرحلہ ایسا آۓ گا کہ تیرا کوئی ہم عمر جگری یار دنیا چھوڑجاۓگا تو اس وقت تو دردناک اکیلا پن محسوس کرو گے یہ تمہارا بوڑھاپن ہوگا ۔۔۔ابو نےسچ کہا تھا ۔۔ایک سے ایک جگری یار رخصت یو ریے ہیں ۔۔
سراج صاحب لنگھوٹیا تھے ان کے ساتھ قدرے بے تکلفی اور احترام کا رشتہ رہا ۔عمر میں کبھی سینئر کبھی جونیئر رہا ۔کالج میں سینئر ،چترال پبلک سکول میں جونیئر ،عہدے میں سینئر اور پھر عمر کوتاہ کے ہاتھوں جونیئر ہوگئے ۔ان کی بھرپور زندگی نے پلٹا کھایا۔۔ عروج کو عروج کے ہاتھوں شکست ہوئی ۔چترال پبلک سکول میں ہم دونوں جوان ہوا کرتے تھے مگر ان کی سنجیدگی کے سامنے میں سہم جاتا وہ وقار اور متانت کی چٹان ہوا کرتے تھے۔انہوں نے انگریزی ادب خوب پڑھے تھے ۔۔تبصرے ہوتے تو وہ زندگی کو ایک حسین ناٹک اور میں ناٹک کا سین کا کہا کرتا ۔۔بعد میں عملی زندگی میں ان کا ماننا تھا کہ میں درست کہہ رہا تھا ۔ان کی زندگی جد و جہد کا مرقع تھی مجھ کو نجی باتیں بتایا کرتے ۔یہ لو گھر بنانے میں اتنی محنت کرنی پڑی یہ لو بچوں کی تربیت ایک آرٹ ہے ۔رشتے نبھانے میں معرکہ سر کرنا پڑتا ہے ۔انہوں نے زندگی کے سارے مرحلے جاندار اور شاندار طریقے سے گزارے ۔ہم کبھی اوپن یونیورسٹی کی پیشہ ورانہ ورک شاپ میں ساتھ ہوتے ۔پھر ایک مرحلہ آیا کہ اس نے مجھ سے کہا کہ ہم سے یہ ڈیوٹی کماحقہ ادا نہیں ہوتی تب میں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ۔وہ بڑے پاکیزہ اور فکرمند واقع ہوۓ تھے ۔ہر کام کو سنجیدہ لیتے ڈیوٹی کو عبادت سمجھتے ۔ان کو اپنے کام سے کام تھا ایک کرشماتی شخصیت تھے اس لیے سب ان سے متاثر تھے جس نے بھی ان کا نام لیا احترام سے لیا ۔وہ مدرس زندگی تھے اپنے شاگردوں کی زندگی میں چراغ بن کےمحفوظ تھے ۔سادہ مزاج اور حساس بہت تھے اپنے آپ کو بیڑ باڑسے محفوظ رکھے ہوۓ تھے ۔اپنی زندگی قیمتی بناۓ نہ اپنا ایک منٹ ضائع کیا نہ شاگردوں کی ایک ساعت گنوائی اس لیے وہ سراپا عقیدت تھے ان کے وصال کے بعد شاگردوں نے ان کے لیے الفاظ کا جو نذرانہ پیش کیا رشک آیا کہ استاذ کتنا عظیم ہوا کرتا ہے ۔
سراج صاحب میں انکساری بہت تھی ہر ایک سے تپاک سے ملتے احترام سے سنتے ۔شاگردوں سے پیار تھا ۔سٹاف کا کہتے ہیں کہ بڑا خیال رکھتے ۔انہوں نے معلمی کا ثبوت انگریزی گرامر کی معتبر کتاب لکھ کے دی ہم اساتذہ کی عادت ہے کہ اپنے علم میں اضافہ کرنے کا نہیں سوچتے بس پاوں پھیلا کر گھوڑأ بھیج کر سوتے ہیں ۔سراج صاحب معلمی کا معیار تھے ۔باوفا تھےیاری نبھانے میں سف اول میں ہوتے ۔قران عظیم الشان کا گہرا مطالعہ تھا عبادات اور معاملات کو یکسان اہمیت دیتے ۔شب خیز تھے ان کی زبان اور ہاتھ سے زرہ بھر بھی کسی کو تکلیف نہ تھی یہ مومن کی حقیقی صفت ہے ۔سراج صاحب نے بھر پورزندگی گزاری ۔میرے لیے بھائی جیسے دوست تھے ۔۔مجھے لگتا تھا کہ ہمارے دل ساتھ دھڑکتے ہیں ۔مجھے شکوہ ہے اس عظیم دل کی دھڑکنوں کو کیا ہوا ۔۔میں ان کی کامیاب اپریشن کی خبر پڑھ کر سجدہ شکر میں گرا تھا ۔۔پھر وصال کی جانکاہ خبر تھی ۔۔میں ان کی پروموشن پر ان کو تہنیت بھیجتا پھر ریٹایرڈمنٹ پر ان کی خدمات پہ لکھتا ۔ابو نے کیا سچ کہا تھا ۔موت میں سراج صاحب پھر مجھ سے جونیئر ہوگیا ۔۔۔ان کا کہنا تھا زندگی ناٹک ہے ۔۔۔میں نے کہا تھا ۔۔یہ ناٹک کا ایک سین ہے ۔۔پھر کیا کیا سین دیکھنے کو ملتے ہیں ۔۔پھول تھا مرجھا گیا ۔۔چاند تھا غروب ہوگیا ۔۔۔سورج تھا ڈوب گیا ۔۔دنیا کے مراحل سے درانا گزرے اللہ آخرت کے مراحل ان پہ آسان کر دے ۔۔۔
أسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے ۔۔۔۔
اللہ تیری قبر کو نور سے بھر دے۔۔۔۔۔



