248

ہمارے حکمران۔۔۔۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

وطن عزیز کے تمام حکمرانوں اور موجودہ لیڈروں کی تقریریں اور با تیں بلکہ اِن کے خو شامدیوں کی چمچہ گیری کو آپ بغور دیکھ لیں تو یہ سارے کے سارے عوام کی عقیدت کا استحصال کر نے کے لیے خو د کو قائداعظم کا حقیقی جا نشین ثابت کر نے پر تلے ہو ئے ہیں لیکن یہ با ت ہمیشہ فہم سے بالا تر ہی ہے کہ یہ ایسے کردار اور طرز عمل سے قائداعظم کے تیر و نظر نہیں آتے ہما رے آج کے لیڈروں کو ہیروئن کے نشے کی حد تک جس چیز کا لپکا ہے وہ خو د پسندی اور اپنی ذات کو طاقت کا سر چشمہ بنانا اور خو د کو حقیقی اور آخری نجا ت دہندہ ثابت کر نا یہ خو د کو ہر قسم کے احتساب اور قانون سے ما وراء سمجھتے ہیں نمو د و نما ئش اور پروٹوکول اِن کا نفسیاتی مسئلہ ہے ہر دور میں حکمران اِس حقیقت کو تسلیم کر نے سے گریز کر تے رہے کہ مالک کا ئنات نے اگر اُن کو اقتدار کی مسند پر بٹھا یا ہے تو عوام کی خدمت کے لیے ہمارے حکمران اِس با ت کو بھی ما ننے سے انکا ری ہیں کہ اصل با ت خدمت سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا نے میں ہے لیکن یہ ہر دور میں یہی سمجھتے رہے ہیں کہ کروفر سے آدمی لوگوں میں معتبر لڑتا ہے بڑا بننے کے لیے جہازی گا ڑیاں شاہی محلات جیسے بنگلے اور لشکری پروٹوکول یہ خو د کو بڑا ثابت کر نے کے لیے قانون کو کمزور یا گھر کی با ندی بنانے کے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں تا ریخ کے اوراق میں شہرت اور نامور ہو نے کے لئے صاحب زر ہو نا ضروری سمجھتے ہیں لیکن اِن عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ شہرت اور عزت میں زمین آسمان کا فرق ہے شہرت تو ظالم کی بھی ہو سکتی ہے مگر تا ریخ کے ما تھے پر عزت صرف عادل حکمرانوں کو ہی نصیب ہو تی ہے شہرت تو کسی دولت مند جاہل کی بھی ہو سکتی ہے مگر عزت صرف عالم فاضل کے مقدر میں ہی آتی ہے شہرت تو کسی ڈکیت یا قاتل کی بھی ہو سکتی ہے مگر تا ریخ کے آسمان پر چاند بن کر چمکنے والے رحم دل ہی ہو سکتے ہیں شہرت تو ہر صاحب اقتدار کی ہو تی ہے مگر عزت صرف صاحب کردار کی ہی ہو تی ہے تا ریخ انسانی کے بہت بڑے حکمران چنگیز خان نے ایک با ر اپنے ساتھیوں سے پو چھا تھا کہ میرا نام تا ریخ میں زندہ رہے گا تو خو شامدی درباری تو خا موش رہے لیکن ایک صاحب عقل بول اٹھا کر جہاں پنا ہ اگر آپ کسی انسان کو زندہ چھوڑیں گے تو ہی کو ئی یا د کر نے والا بھی ہو گا یہی حال تما شی حکمرانوں کا ہو تا ہے کہ اگر یہ عوام کو انصاف اورسہولیات دیں گے تو ہی عزت پا ئیں گے رہ گئی شہرت تو وہ تو ہر دور کے فرعون تیمو ر ہلا کو کو بھی حاصل رہی ہے شہرت اور خو د پسندی بڑے بڑوں کو نیست و نا بود کر دیتی ہے لیکن تا ریخ میں زند ہ صرف نیک نام و عوام کے خدمت گزار ہی رہ جا تے ہیں آج کے لیڈر اور پچھلے حکمران جس کو بھی آپ دیکھ لیں وہ خو د کو خلفا ء راشدین کا جانشین قرار دیتے ہیں اِن بصیرت کے اندھوں کو کون سمجھا ئے کہ تا ریخ انسانی کے عظیم اور عادل ترین خلفا ء راشدین کی عزت پروٹوکول کے سائے میں یا محلات میں رہنے سے نہیں بلکہ رات کو پہرہ دینے سے بڑھی ‘حضرت ابو بکرؓ کو حکمرانی کے دور میں بھی کپڑے کے تھان کندھے پر رکھ کر بیچنے میں کو ئی عار نہ تھی اور فاروق اعظمؓ کو راتوں کو ضرورت مند وں کو تلاش کر نے اور بیت المال کے گم شدہ اونٹوں کو خو د ڈھونڈنے میں کو ئی تا مل نہ تھا ‘حضرت عثمان غنیؓ کو اما رت سے غربت کے سفر میں کوئی تکلیف نہ تھی اور شیرِ خدا حضرت علیؓ کو ایک یہودی کی شکا یت پر عدالت میں پیش ہو نے میں کو ئی ہچکچاہٹ نہ تھی اور پھر اہل دنیا نے خو شگوار حیرت سے دیکھا حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو انکی پہلے سالانہ آمدنی پچاس ہزار اشرفیاں تھی امیر االمومنین بنے تو آمدن دوسو اشرفی رہ گئی جبکہ ہما رے حکمران کرا ئے کی گاڑیو ں میں آتے ہیں اور چند شب و روز اقتدار کے ایوانوں میں لو ٹ مار کے بعد دولت کے انبار لے کر جا تے ہیں یہاں تو کنگال آتے ہیں اور مال دار بن کے جا تے ہیں یہ مثالیں دیتے ہیں عوام کے خادم اِن کی خدمت میں عرض ہے عمر بن عبدالعزیز خلافت سے پہلے دو ہزا ر درہم کا ریشمی لبا س زیب تن کر تے تھے خلیفہ بنے تو پا نچ درہم کے لباس پر آگئے اور اِیسی فقیرانہ حکمرانی پر آپ کے انتقال پر قیصر روم نے اِس طرح خراج عقیدت کا اظہار کیا کہ کو ئی راہب دنیا چھوڑ دے تو کو ئی تعجب نہیں حیرت تو اِس پر ہے کہ جس کے قدموں میں دنیا جہان کی دولت بچھی تھی مگر اُس نے فقیرانہ زندگی بسر کی ہما رے موجود ہ لیڈر وں کو اگر آپ دیکھیں تو غریب عوام پر ترس ہی آتا ہے اِن لیڈروں کی طرز زندگی ملا حظہ فرمائیں رائے ونڈ کے محلات ‘ وسیع و عریض سینکڑوں ایکڑز پر محیط سلنطت ‘بلا ول ہا ؤس کی آرائش و تزئین اور بھٹو خاندان کی ہزاروں ایکڑ پر مشتمل سلطنت ‘عمران خان صاحب کا طرز زندگی اور بنی گالا کی سلطنت ‘چوہدریوں کا طرز زندگی اور گیلانی صاحب کی لو ٹ مار کے قصے تو ابھی بھی پرانے نہیں ہو ئے اِن کو شرم نہیں آتی جب یہ خود کو قائداعظم اور خلفا ء راشدین کے حقیقی وارث قرار دیتے ہیں جو لیڈر حکمران وطن عزیز کے کسی ہسپتال میں علا ج کروانا پسند نہ کر تے ہوں جن کے بچے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہ کرنا چاہتے ہو ں جن کی شادیوں پر شاپنگ دشمن ملک سے کی جا تی ہو جنہوں نے عوام کش سسٹم میں کبھی حقیقی تبدیلی لا نے کی کو شش نہ کی ہو ، ہما رے حکمران شہرت کے طالب ہیں اِن کو یہ کو ن سمجھا ئے کہ شہرت کے لیے عوامی خدمت کا ہو نا بہت ضروری ہے حقیقی حکمران جہازی مہنگی گا ڑیوں میں ہیلی کا پڑوں اور پروٹوکول کے لشکروں کے ساتھ حرکت کر نا زر نگار کر سیوں پر بیٹھنا دنیا کے مہنگے ترین لباس پہننا قصیدہ گوؤں کی محفلیں سجانا اپنے خو شامد یوں حواریوں کے ساتھ دنیا جہاں کی سیر کر نا اِن کے شوق اور مزاج شامل نہیں ۔ ہما رے لیڈروں کی یادداشت کے لیے عرض ہے کہ قائداعظم جو پاکستان چاہتے تھے یہ کو ئی مشکل فلسفیانہ با ت نہیں ہے بلکہ وطن عزیزکا عام شہری بھی اِس حقیقت کو اچھی طرح با خبر ہے کہ قائداعظم کیا پاکستان چاہتے تھے شاعر مشرق نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور قائداعظم نے جس عظیم ملک کے لیے اپنا خو ن پسینہ بہا یا اور لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر جس پاکستان کی جدوجہد کی اُس پاکستان میں با دشاہ ‘چوہدری ‘سردار ‘میاں ‘یاصاحب کا قانون نہیں بلکہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کا قانون نا فذ ہو گا ایسا اسلامی حقیقی قانون جو ہر ایک چھوٹے بڑے امیر غریب کو عزت نفس مساوات اور انصاف کی ضمانت فراہم کر ے گا ایسا پاکستان جس میں چند خا ندانوں کی سیا سی معا شی اجارہ داری نہیں ہو گی یہ ملک کسی کی ذاتی جا گیر نہیں ہو گی نہ ہی نسل در نسل حکمرانو ں کو کسی کو حق حاصل ہو گا ہر شخص کو اُس کی ذہنی و علمی جسمانی فکری و فنی صلاحیت کے مطابق تر قی کے یکسا ں موا قع میسر ہو نگے اور حکمرانی عوام کی ہو گی عوام کے حقیقی اصلی نما ئندوں کی ہو گی اقتدار عوام کی خوا ہشوں اور امنگوں کے مطابق ہو گا غیر ملکی طا قتوں کی کٹھ پتلیاں حکمرانی نہیں کر یں گی ایسا پا کستان جس میں ایسی تفریق اور امتیاز نہیں ہو گا کہ نسل در نسل حکمرانوں کی اولاد ہیں جو نکیں بن کر عوام کا خون چوستی رہیں ایسا نظام نہیں جہاں حکمران کی اولاد حکمران اور ساری کا بیٹا ساری رہے ایسا پاکستان جسمیں افراد کی بجا ئے ادارے مضبوط ہوں انصاف ایسا کہ حق دار کو آسانی سے اُس کا حق حاصل ہو جہاں زندگی گزارنے کے لیے کسی چوہدری یا با اثر کی خو شامد یا نو کری نہ کر نے پڑتی ہو یہ تھا وہ پاکستان جسے قائداعظم نے حاصل کر نا چاہا اور حاصل کیا لیکن اتنے سال گزرنے کے با وجود شاعر مشرق اور قائداعظم کا خواب ابھی تک ادھوار ا ہے تشکیل پاکستان کے بعد تکمیل پا کستان کا حقیقی مرحلہ ابھی با قی ہے ایسا پاکستان جہاں پر ایک حقیقی آزادی ہو آگے بڑھنے کے مواقع یکساں ہو ں تو ہم کہہ سکتے ہیں یہ ہے قائداعظم کا پاکستان ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں