جب میں مر جاؤں تو میری موت پہ چھٹی دینے کے بجائے ایک دن اضافی کام کیا جائے۔ یہ الفاظ یقینی طور پر کسی ایسی شخصیت کے ہو سکتے ہیں جس کی پوری زندگی انتھک محنت سے عبارت ہو۔ یہ الفاظ ڈاکٹر عبدالکلام کے ہیں۔ جو 83سال کی عمر میں داعی لقمہ اجل ہو گئے۔ اسی طرح ایک موقع پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ خدا بھی ان کی ہی مدد کرتا ہے جو سخت محنت کے عادی ہوں۔ ان دو جملوں میں ایک ممتازانسان کی پوری زندگی مقید ہے۔
کیا کسی کو خبر تھی کہ 1931میں ایک کشتیاں تیار کرنے والے غریب زین العابدین کے گھر پیدا ہونے والا بچہ ایک دنیابھارت کا صدر بن جائے گا؟ 47ء کے فسادات ہوں یا پھر گجرات فسادات اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں مسلمان یقیناًمشکلات کا شکار رہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبد الکلام جیسے محسنوں کو بھارت میں اعلیٰ ترین مقام بھی دیا گیا۔ آٹھ سال کی عمر میں اپنے کزن شمس الدین کے ساتھ اخبار فروخت کرنے والے اس بچے کے بارے میں کسے خبر تھی کہ ایک دن وہ ” میزائل مین ” کے نام سے جانا جائے گا۔ یہ خطاب ڈاکٹر صاحب کو میزائل ٹیکنالوجی میں لافانی خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔ انڈیا میں لوگ انہیں میزائل مین کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس کے علاوہ 74 کے بعد 98ء میں پوکھران کے ایٹمی دھماکوں میں ان کا کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں انہیں بھارت کے صدر کی مسند پہ بٹھایا گیا۔
83سالہ ڈاکٹر عبدالکلام کی زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔ مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلے کے لیے ان کے پاس ایک ہزار فیس تک نہ تھی۔ بہنیں ہمیشہ بھائیوں کے لیے قربانیاں دیتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمشیرہ نے اپنی چوڑیاں گروی رکھ کے داخلے کی فیس کے پیسے جمع کروائے۔ مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے گریجوایشن کرنے کے بعد عبد الکلا م نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا نئی منزلیں روشن ہوتی گئیں۔ نئے راستے طے ہوتے رہے۔ انڈین ریسرچ اینڈ سپیس آرگنائزیشن سے وابستگی ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں بھی انقلاب لے کر آئی کیوں کہ روہینی- I(Rohini-1) کی کامیابی کے بعد حکومت نے خصوصی طور پر ڈاکٹر صاحب کی خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے منصوبے شروع کیے۔ Rohini نام تجرباتی سیٹلائٹ کی ایک سیریز کو دیا گیا تھا Rohini-1انڈین سپیس اینڈ ریسرچ سینٹر نے 1978میں خلاء میں بھیجا گیا اور اسی منصوبے سے ڈاکٹر صاحب ایک محترم شخصیت کے طور پر بھارت میں ابھرے۔ ڈاکٹر صاحب کی وجہء شہرت SLV یعنی Satellite Launch Vehicleبنی۔ اس ٹیکنالوجی نے انڈیا میں جلائی تحقیق میں نئی راہیں ہموار کیں۔
ڈاکٹر عبدالکلام کی خدمات کے اعتراف میں انہیں1981ء میں پدما بھوشن ایوارڈ،1990ء میں پدما وی بھوشن ایوارڈاور 1997 میں بھارت کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ بھارت رتنا سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں اندرون ملک اور بیرون ملک 20سے زائد اعزازت سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر عبدالکلام کو بھارت میں سب سے زیادہ معتبر شخصیت سمجھا جاتا تھا۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے ان کی زندگی سے جڑے کچھ واقعات نہایت اہم ہے۔ ڈاکٹر صاحب جب ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن سے وابستہ تھے تو انتظامیہ نے حفاظتی انتظامات کے لیے دیوار پر کانچ کے ٹکڑے لگانے کا منصوبہ بنایا لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ منصوبہ صرف اس وجہ سے رد کر دیا کہ پرندوں کو دیوار پر بیٹھنے میں مشکلات پیش آئیں گی ۔ ایک تعلیمی ادارے کی تقریب میں ڈاکٹر صاحب نے اس وجہ سے مخصوص کرسی پر بیٹھنے سے انکار کر دیا کیوں کہ اس کا حجم باقی کرسیوں سے بڑا تھا جو اس کو باقی نشتوں سے ممتاز کرتا تھا۔ صدارت سنبھالنے کے بعد جب وہ کیرالہ گئے تو انہوں نے صدارتی مہمان کے طور پر ایک چھوٹے سے ڈھابے کے مالک کو اپنا مہمان بنایا کیوں کہ اس کے ساتھ ان کا بہت اچھا وقت گزرا تھا۔
بھارت جیسے متشدد معاشرے میں ڈاکٹر صاحب جیسا محنتی شخص جب احترام کا استعارہ بن جاتا ہے تو یقیناًحیرانگی بھی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حیرانگی اس وقت مسکراہٹ میں بدل جاتی ہے کہ ایک ایسا شخص جس پرندوں کی تکالیف تک سے آگاہ ہے اسے کیونکر نہ اتنا احترام دیا جائے۔ انڈیا میزائل ٹیکنالوجی کے بانی سے محروم ہوا یا خلائی تحقیق کے گرو سے ؟ نہیں۔ بلکہ دنیا ایک عظیم انسان سے محروم ہو گئی۔ ایک ایسا انسان جس اخبار فروش سے ملک کا صدر بن گیا لیکن وہ کبھی عاجزی نہ چھوڑ سکا۔
یہ”زُبانِ اہلِ زمیں”ہے۔قارئین اپنی تجاویز اور آراء کے لئے اس ایڈریس پر مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔