صبح سے منیٰ نے چیونگم مانگ مانگ کر سکون برباد کر دیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دس روپے کا نوٹ تھا۔ مگر اب کسی دکان سے چیونگم نہیں ملتے تھے۔ دکاندار کہتے تھے سارے سامان ختم ہوئے ۔ دکانیں خالی ہوگئیں ہیں ۔ روڈ بند ہے کیا کریں گے ؟ منیٰ کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اس کے ابو آج بھی شام کو خالی ہاتھ آئے گا۔ آج وہ آٹے کی تلاش میں نکلا تھا ۔ کسی دکان سے آٹا نہیں ملتا تھا ۔ گودام میں غلہ بھی ختم ہو گیا تھا ۔ جو کی کھڑی فصل سے غلہ حاصل کیا جا سکتا تھا ۔ مگر پن چکی سیلاب میں برباد ہوگئیں تھیں ۔آٹا کی مشینوں کے لئے تیل نہیں تھا۔ دکانوں میں ساماں خوردونوش ختم ہوتے جارہے تھے ۔ فاقعوں کی نوبت آنے والی تھی ۔ والدین خود سے زیادہ بچوں کے لئے پریشان تھے ۔ ۔ منیٰ کے ابو شام کو صرف ایک کلوچاول کے ساتھ واپس آیا۔ بیوی نے کہا کہ گھی نہیں ہے ۔ شوہر نے کہا بغیر گھی کے پکاؤ ۔ بچوں نے چلنچ کیا کہ وہ نہیں کھائیں گے بھات لگن میں ڈالی گئی ۔ شام کے سایے تھے ۔ اُس کی جوان بچی کولر لے کے پانی لانے گئی تھی ۔ وہ بچی جو بلا ضرورت کبھی گھر سے نہیں نکلتی ۔مگر گھر میں پانی نہیں تھا ۔ اس لئے مجبوراًگھر سے نکلی تھی۔کئی سالوں بعد پھر سے پھنگٹ سجا تھا ۔ مگر اس بار وہاں پر قہقہے نہیں تھے ۔ حسرت تھی انسو تھے ۔ اللہ کی طرف سے آزما ئشوں کا ذکر تھا ۔ پیپوں میں آنے والا صاف پانی کی یادیں تھیں ۔ منیٰ کی ماں بیمارتھی ۔ دوائیاں ختم ہو چکی تھیں کہیں سے ملتی نہیں تھی ۔ باغوں میں پودے ، کھیت کھلیانوں میں سبز یاں سو کھ گئیں تھیں ۔ لو گوں تک امدادی سامان پہنچا نا جوئے شیر لانا تھا ۔ ہیلی آئی تھی ۔ مگر یہ مسئلے کا حل نہیں تھا ۔ تباہ حال لوگ ،تباہ حال لوگوں کی دلخراش داستانیں سنارہے تھے ۔ روڈوں کی بحالی پر حکومت کی کوششوں اور پاک فوج کے جوانوں کی جان فشانی کا ذکر ہوتا ۔ سب ایک دوسرے کو تسلی دینے کے انداز میں کہتے وہ
روڈ ایک ’’ہفتے ‘‘ میں کھل جائیں گئے ۔ ایک ہفتہ دوسرے ہفتے میں داخل ہوتا ۔ ’’منیٰ کو اپنے چیونگم کی پڑی تھی ‘‘ ہر طرف بے بسی تھی ہر ایک کو ہر ایک کے درد کا احساس تھا۔ سمجھدار لوگ سوچ سوچ کر تھک گئے تھے ۔ آہ بھرتے ۔کہتے ۔۔۔یا اللہ پاک فوج کے جوانوں کو ایسی طاقت دے کہ کوراغ میں پہاڑ خود بخود ڈھ جائے اور راستہ بن جائے ۔۔۔وہاں سے پہاڑ چڑھتے ہوئے جب ایک عورت کو بے بسی کے عالم میں راستے میں پڑی دیکھا تو آنسو پھوٹ پڑے ۔۔۔مولیٰ تیرے حبیب ؐ نے فر ما یا ۔ اہل ایمان پر اللہ کا عذاب نازل نہیں ہو تاو ہاں آز مائش آتی ہے‘‘مولیٰ یہ سخت آزمائش ہے۔ انہوں نے آنسو گراتے گراتے کہا ۔۔۔بھائی جان ! جوتے تنگ تھے۔ پاؤں پرابلے پڑے ۔ ۔۔پھر موج آگئی وہ بلند آواز سے رونے لگی۔میں نے حسرت سے نیچے دیکھا تو پہاڑ کی خوفناک بلندی مجھے کھا گئی اور نیچے لبِ دریا پاک فوج کے جوان حرکت کرتے نظر آئے ۔ پھر دریا کی بے رحم موجیں تھیں ۔۔۔میں نے کہا یا اللہ تیرے مومن بندوں کی ٹھوکر سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوتے ہیں ۔ کیا میرے عظیم فوج کے جوان ان موجوں سے ’’شکست ‘‘کھا گئے ورنہ تو ایسے شیر دل جوانوں کو دریا راستہ دیا کرتے ہیں ۔ میں نے چیخ کر نیچے کو پکارا ۔ میرے عظیم جوانوں ! میری بہن کے پاؤں میں موج آگئی ہے ۔ یہ اپنے بھائیوں کو پکار رہی ہے ۔ تم صدی کے ’’کو ہکن ‘‘ہو۔ریزہ ریزہ کرو اس پہاڑ کو ۔۔۔۔میری آواز فضا میں تحلیل ہو گئی ۔ میں ’’بے بس بہن ‘‘کی پکا ر غیر مند بھائیوں ‘‘تک پہنچانا چاہتا تھا ۔۔۔۔غیرت قوم کی ڈیکشنری میں لفظ ’’ناممکن ‘‘ نہیں ہوتا ۔ نامکمن کو’’ مکمن ‘‘بنانے میں جلدی کرنا بھی غیرت مند قوم کا کام ہے۔ ریشن گول کے اوپر پلک جھپکنے میں پُل تیار ہو گیا ۔ افرین ہو پاک فوج کو ۔۔۔قرآن میں زمین و آسماں کی تخلیق کی مدت سات دن کہا گیا ہے علماء کہتے ہیں کہ انسانوں کوسمجھانے کے لئے ہے۔ ورنہ ان دنوں کی مدت کا اصل علم خالق کائنات کے پاس ہے۔ جو انسانوں کی عقل سے باہر ہے۔ ایک ہفتے کے اندر ذرائع آمدورفت کی بحالی کا مژدہ شاید تسلی ہے ۔ شکست کو فتح میں بدلنے کے لئے مورال کی بلندی پہلی شرط ہے ۔ شاید یہ ’’ہفتہ ‘‘ ہفتوں میں بدل جائے ۔ ہم اس کو’’ ہفتہ ‘‘ہی کہیں گے ۔ اس سمے ذرائع آمدورفت کی بحالی قوم کو اس بحران سے نکالنے کے لئے پہلی اور اصل کامیابی ہے۔ اور دکان میں ’’چیونگم‘‘اور ’’آٹا ‘‘ملے تو منیٰ کے ابو اپنی گائے بھیج کر ’’آٹا ‘‘ اور ’’چیو نگم ‘‘خریدے گا اپنے بچوں کو موت کے منہ سے نکالے گا۔ ساری عمر حکومت اورپاک فوج کو دعا دیتا رہے گا ۔ یہ بات منیٰ کو سمجھایا نہیں جا سکتا ۔ کہ ’’روڈبند ہیں ایک ہفتے میں کھلیں گے ‘‘لیکن پاؤں میں موج آتی قوم کی بیٹی کی دھائی پاک فوج کے جوانوں میں انتی ہمت پیدا کر ے کہ وہ دریا کی موجوں کو شکست دیں