چترال میں 35میگاواٹ بجلی کی تقسیم کا انفراسٹرکچر پیسکو اور پیڈو کے پاس موجود ہے۔صرف لائنوں اور ٹرانسفارمروں کی اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے ۔انجینئر فضل ربی
چترال(بشیر حسین آزاد)چترال ٹاون اور دیگر تحصیلوں کو بجلی دینے کے بارے میں واپڈا کے موقف اور پیسکو(PESCO) حکام کے حیلوں،بہانوں کو بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے ماہرین نے مسترد کیا ہے۔چترال پریس کلب کے پروگرام مہراکہ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انجینئر فضل ربی نے کہا کہ چترال میں 35میگاواٹ بجلی کی تقسیم کا انفراسٹرکچر پیسکو اور پیڈو کے پاس موجود ہے۔صرف لائنوں اور ٹرانسفارمروں کی اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے جو دومہینوں کے اندر ہوسکتا ہے،حکومت نے اس کے لئے فنڈ دیا ہوا ہے۔پیسکو اور پیڈو حکام مل کر کام کریں تو چترال ٹاون کے ساتھ دروش،لٹکو،علاقہ کوہ،مستوج،تورکھو اور موڑکھو کے400سے زیادہ دیہات میں50ہزار صارفین کو بجلی دے سکتے ہیں،اس وقت چترال میں10میگاواٹ بجلی ڈیزل جنریٹروں سے پیدا کی جارہی ہے۔بونی میں روازنہ 4گھنٹے ،گرم چشمہ میں 16گھنٹے بجلی دی جارہی ہے۔چترال ٹاون کے آدھے سے زیادہ دیہات دنین،بکرآباد،جغور وغیرہ میں روزانہ 4گھنٹے بجلی آتی ہے،ریشن کے جنریٹر چلائے گئے تو اس کا بھی یہی حال ہوگا۔بجلی نہ ہونے کی وجہ سے کئی انڈسٹریل یونٹ بند پڑے ہیں۔ارہ اور خراد کی مشینوں کو ڈیزل جنریٹروں کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔چترال کے منی ہائیڈل سکیموں سے صرف بلب روشن ہوتے ہیں۔کوکنگ اور ہیٹنگ کے لئے موجودہ حالات میں36میگاواٹ بجلی بھی کم پڑے گی۔اس لئے واپڈاکا موقف حقائق پر مبنی نہیں قومی نمائندوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔ڈیزل جنریٹر کو پن بجلی پر ترجیح دینا حماقت ہے۔دنیا کے لوگ ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں۔