اسلام کی اخلاقی تعلیم۔۔ تحریر۔۔ارشاد اللہ شادؔ ۔۔بکرآباد چترال
اسلام میں یوں تو بہت سے خوبیاں ہیں، لیکن اسلامی تعلیمات کے جس پہلو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ اسلام کی اخلاقی تعلیم ہے جس کے ذریعے اسلام اپنے متّبعین کو انسانیت کا اعلیٰ نمونہ بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسانی سماج اور سوسائٹی کی عمدگی اور پختگی کا جتنا تعلق اخلاق کے ساتھ ہے اتنا کسی اور چیز کے ساتھ نہیں ہے ۔ چنانچہ جن مفّکرین نے قوموں کے عروج و زوال کے اسباب کا مطالعہ کیا ہے ، وہ اس بات پر پوری طرح متفّق ہیں کہ ہر قوم کا عروج اس کے اخلاق و کردار کا بلندی کا آئینہ دار ہوتا ہے اور جب کسی قوم میں اخلاق باقی نہیں رہتا تو اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔
اسلام نے اپنے پیش نظر روحانی اور مادی مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے انسانوں کے اخلاق اور کردار ہی کو اعلیٰ اور معیاری بنانے کی طرف سب سے زیادہ توجّہ مبذوں کی ہے اور اسلامی نظام حیات میں زندگی کے ہر شعبے کے متعلق جو تفصیلی ہدایات شامل ہیں وہ اسلام کی اسی بنیادی مقصد اور نصب العین کو واضح کرتی ہیں۔
آج سیاست کے زاویہ نگاہ سے یہ سوال بہت زیادہ اہم بنا ہوا ہے کہ سماج کی اصلاح کا کام سماج کے اعلیٰ طبقوں سے شروع کیا جائے یا ادنیٰ طبقوں سے اس سلسلہ میں ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ جس طرح پھلدار درخت سے اچھے پھل حاصل کرنے کیلئے ہمیں اس درخت کی جڑ کی طرف توجّہ کرنی اور اس درخت کیلئے مناسب غذا مہیّا کرنی چاہیے۔ اسی طرح سماج کی اصلاح کیلئے بھی ہمیں اس کی بنیادی طبقوں کی اصلاح پر متوجّہ ہونا چاہیے ۔ لیکن دوسراگروہ شاخوں اور پتوں کی اصلاح کر دینے ہی کو کافی سمجھتا ہے مگر اسلام نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور ان افراد کی اصلاح کو مقدّم رکھ کر ان ہی افراد کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کو اعلیٰ اور ترقی پسند سوسائٹی کا سنگ بنیاد قرار دیا ہے۔
اسلام نے افراد کی ذہنیت کیلئے پورے انسانی معاشرہ کو کئی حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ مثلاََ اس نے سب سے پہلے ایک فرد کی زندگی کو اخلاق اور کردار کا معیاری نمونہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ پھر اس ایک فرد کی زندگی کو اس کے خاندان سے وابستہ کرکے اسے اس کے فرائض بتائے ہیں۔ خاندان کے بعد اسلام نے اس کے رشتہ داروں کے ساتھ جوڑ کر ہر شخص کی ذمّہ داریاں اس مقام پر پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے لیکن چونکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے، اس لئے رشتہ داروں اور برادریوں کی حدود کو توڑ کر ایک فرد کو پوری بنی نوع انسان کے ساتھ وابستہ کیا ہے چنانچہ ہمسایوں ، محلّہ اور شہر کے باشندوں ، پورے ملک حتیٰ کہ بین الاقوامی ذمّہ داریوں اور حقوق سے بھی آگاہ کیا ہے اور ان تمام تعلقات میں اسلام نے اخلاق کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
اسلام نے انسان کی انفرادی زندگی کے متعلق اسے جو ہدایات دی ہے در اصل وہی پورے انسانی معاشرہ کی صحت مندی اور اس کے اعلیٰ کردار کی ضمانت ہیں، غرض کہ انسان کی ذمّہ داریوں کا دائرہ جتنا زیادہ پھیلتا جاتا ہے۔ ان بنیادی تعلیمات میں بھی اسی قدر زیادہ وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے، چنانچہ اسلام کے نظریہ زندگی کے مطابق ایک فرد کو اپنی زندگی اس طرح گزارنی پڑتی ہے کہ اس کی ذات کسی لحاظ سے بھی دوسروں کیلئے تکلیف کا باعث نہ بنے بلکہ اس سے سماج کی اعلیٰ قدروں کے بر قرار رہنے اور ترقی کرنے میں مدد مل سکے اور یہ بات ظاہر ہے کہ ایسی زندگی وہی گزار سکتا ہے جس میں عمل کی قوت ہو ، جو دوسروں کیلئے ایثار اور قربانی کرسکے ۔ عدل و انصاف اور رواداری کو اپنا نصب العین سمجھے اور اپنی ذات کوپوری کائنات کا ایک جزو یقین کرکے اس کے فائدہ کے سامنے ذاتی فائدہ کی کوئی پرواہ نہ کرے۔
اسلام نے انفرادی زندگی کیلئے جو ہدایات دی ہیں، ان میں انسان کو اپنے اندر انہی خصوصیات کو پیدا کرنے کی طرف توجّہ دلائی ہے اور اسلام کی پوری تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے مقصد میں ناکام نہیں رہا ہے۔
اسلام کی تاریخ میں خلفائے راشدین کی ذات مثال اور نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے اور ان حضرات کی انفرادی زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ذات کتنی پاکیزہ اعلیٰ اخلاق اور کردار کا نمونہ اور سماج کیلئے کتنی مفید تھی۔
یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ اسلام میں خلفاء کی حیثیت ایک روحانی پیشواء جیسی ہی نہیں تھی بلکہ وہ اپنی ذات کو دوسروں کیلئے نمونہ بنا کر پیش کرتے رہے۔مثلاََ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کبھی بھی اپنے خلیفہ ہونے پر فخر محسوس نہیں کیا اور ہمیشہ اسے ایک عظیم ذمّہ داری سمجھ کر قوم سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرتے رہے کہ وہ انہیں ان کی اس ذمّہ داری کو پورا کرنے میں مدد دے وہ اپنا کام خود کرتے تھے اور مسلمانوں کا خلیفہ چنے جانے سے انہوں نے عوام کی جن خدمتوں کو ذاتی طور پر اپنے ذمّہ لیا تھا، انہیں بدستور انجام دیتے رہے۔
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ اسلام کے جلیل القدر طاقتور اور با اختیار فرزند تھے۔ لیکن ایک بڑی اسلامی سلطنت کے حکمران ہونے کے باوجود وہ خود کو اسلامی اور انسانی سوسائٹی کا ایک مساوی درجہ کا فرد سمجھتے تھے ۔ اور ان کی مساوات پسندی کا اندازہ فلسطین کے اس سفر سے اچھی طرح کیا جا سکتا ہے ، جو انہوں نے اس شرط پر اپنے غلام کے ساتھ کیا تھا کہ جو ایک اونٹ ان کے ساتھ ہے اس پر دونوں باری باری سے سوار ہوں گے اور جب غلام اور خلیفہ پر مشتمل یہ قافلہ بیت المقدس پر پہنچا تو خلیفہ نے اس وجہ سے اونٹ پر بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس منزل میں غلام کے سوار ہونے کی باری تھی۔
اسلام نے اخلاق اور کردار کا جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے اسی کی بدولت ظہور اسلام کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مسلمان اس وقت کی دنیائے معلومہ کے ایک بڑے حصّے پر پھیل گئے تھے اور ان کی بدولت پہلہ مرتبہ عہد وسطیٰ کے انسان کو اخلاقی قدروں سے واقف ہونے کے بعد سکون اور اطمینان حاصل ہوا تھا۔۔۔
قلم ایں جا رسید و سر بشکست…..!!