صدا بصحرا۔۔۔۔سینیٹ انتخابات کی بازگشت۔۔۔
پاکستان کا پارلیمنٹ دو ایوانی مقنّنہ ہے ۔ ایوانِ بالا کو سینیٹ اور ایوان زیرین کو قومی اسمبلی کا نام دیا گیا ہے ۔قومی اسمبلی کے انتخابا ت ہر 5سال بعد اور سینیٹ کے انتخابات ہر 3سال بعد ہوتے ہیں کیونکہ نصف ارکان 3سال بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں ۔الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے انتخابات کے لئے 3مارچ 2018کی تاریخ مقرر کی ہے ۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور فاٹا سے سینیٹ اراکین کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے اراکین ووٹ ڈالیں گے ۔پنجاب ،سندھ ،خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے سینیٹ کے اراکین کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے ووٹوں سے ہوگا ۔اخبارات میں سینیٹ کے انتخابات کی خبر آتے ہی سیاسی لیڈروں کے بیانات کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ایک بیان یہ آرہا ہے کہ ہر پارٹی دوسری پارٹی پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہے ۔دوسرا بیان یہ آرہا ہے کہ بعض لوگ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔تیسرا بیان اس طرح آرہا ہے کہ پارٹی لیڈر ہر پارٹی کے ا راکینِ اسمبلی کو اپنی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے کا پابند کرینگے۔ایک اور بیان یہ بھی آرہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں دولت کی چمک اپنا کام دکھائے گی اور یہ سب سے سچا اور کھرا بیان ہے۔سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ دینے کے لئے بھی پیسے ملتے ہیں اور ووٹ لینے کے وقت غیر حاضر ہونے کے لئے بھی پیسے ملتے ہیں ۔ہمارے ایک دوست کو قبائلی اراکین اسمبلی نے بہت تنگ کیا تو انھوں نے یہ سوچا کہ پارٹی لیڈرسے رائے لی جائے پارٹی لیڈر نے پوچھا تمھیں ووٹ دینے کے لئے کتنی رقم کی آفرآئی ہے؟ اس نے کہا دو کروڑ روپے ۔پارٹی لیڈر نے کہا کہ میرے پاس ڈھائی کروڑ روپے کی آفر غیر حاضری کے لئے آئی ہے۔تم ووٹ سے ایک رات پہلے غائب ہوجاؤ۔تلہ گنگ ٗپنڈی گھیپ یا گوجر خان کے گمنام ریسٹ ہاؤس میں بسیرا کرلو۔فون بند رکھو ڈھائی کروڑ روپے لے لو اور ووٹ گذرنے کے بعد واپس آجاؤ ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔وہ خوش قسمت دور تھا اس دور میں سینیٹ کے دو انتخابات ہوئے اور دونوں میں سرمایہ کاری ہوئی۔بہت سرمایہ کاری ہوئی ۔جن لیڈروں نے ممبران اسمبلی کو پابند کیا ہے کہ صرف پا رٹی کے امیدواروں کو ووٹ دو وہ بھی خدا کے نام پر اپنا ووٹ نہیں دینگے۔پارٹی ایسے لوگوں کو سینیٹ کا ٹکٹ نہیں دیتی جو پیسہ خرچ کرنے کی استعداد نہ رکھتے ہو ں بلکہ ہر پارٹی چن چن کر ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے جو پیسہ خرچ کرنے کی کمال صلاحیت رکھتے ہوں ایوانِ بالا کی45سالہ تاریخ میں 178 سینیٹر ز ایسے گذرے ہیں جنہوں نے سینیٹ کی کاروائی میں کبھی حصہ نہیں لیا ۔کوئی سوال کوئی نقطہ اعتراض ،کوئی نقطہ استحقاق ،کوئی تحریکِ التوا نہیں اُٹھایا ایوان بالا میں چُپ کا روزہ رکھ کر بیٹھے رہے ۔رجسٹر پر دستخط اور مراعات کی وصولی تک محدود رہے ۔ ایسے نابغہ روزگار اراکین میں کئی حضرات 3بار ایوان کے رکن بنے اپنے بھائی بیٹے کو بھی ایوان کا رکن بنایا ۔اس پر پیسہ لگایا یا بلکہ اردو محاورے کی رو سے اپنا مال پانی کی طرح بہایا۔اور ایوان میں چپ رہنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ آخر ایوانِ بالا میں ایسے لوگ کیوں آتے ہیں۔اس کی واحدوجہ یہ ہے کہ ہمارا انتخابی نظام بہت ناقص ہے ۔دولت مند لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے پارلیمنٹ میں مزدور ،استاد ،ڈاکٹر،عالم دین اوردیگر اہم پیشوں سے تعلق رکھنے والے عوام کی کوئی نمائندگی نہیں۔جاگیردار، کارخانہ دار، صنعتکار ، سر مایہ دار اور دولت مند طبقہ ہی پارلیمینٹ میں آتا ہے ۔اس مقصد کے لئے سیاست کو جان بوجھ کر مہنگا کر دیا گیا ہے۔ایک جلسے پر 5کروڑروپے کا خرچہ آتا ہے ۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست جیتنے پر 7کروڑ روپے اور سینیٹ کی نشست پر 20کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے۔یہ مزدور ، کسان ،ڈاکٹر ،استاد ،عالم دین اور عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔چین اور روس کے پارلیمنٹ میں غریب طبقے کی اکثریت ہے ۔برطانیہ،امریکا ،ایران اور پڑوسی ملک بھارت میں بھی غریب آدمی پارلیمنٹ کا حصہ بن سکتا ہے ۔ایوانِ بالا کا ممبر بن سکتا ہے وطنِ عزیز پاکستان میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔چنانچہ سینیٹ کے انتخابات کی باز گشت آتے ہی اراکینِ اسمبلی کو شو کیسوں میں سجایا گیا ۔برائے فروخت کی تختی اُن پر چسپاں کی گئی ہے کسی شاعر کا مصرعہ ہے’’ لگا ہے مصر کا بازار دیکھو‘‘۔