وزارت عظمیٰ سے نااہل کیے جانے کے بعد پارلیمان سے آئینی ترمیم کے ذریعے پارٹی لیڈرشپ کی راہ ہموار کرنے والے میاں نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے
وزارت عظمیٰ سے نااہل کیے جانے کے بعد پارلیمان سے آئینی ترمیم کے ذریعے پارٹی لیڈرشپ کی راہ ہموار کرنے والے میاں نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی اور اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ طاقت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترنے والا ہی پارٹی صدر بن سکتا ہے.
سپریم کورٹ نے نواز شریف کی مسلم لیگ ن کی صدارت ختم کردی اور قرار دیا کہ پابندی کا اطلاق نواز شریف کی نااہلی کی مدت سے ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کسی پارلیمینٹیرین کو چور اچکا نہیں کہا، مفروضے پرمبنی سوالات کررہے تھے، الحمداللہ اور ماشاء اللہ کے لفظ اپنی لیڈر شپ کے لیے استعمال کیے، ہم نے کہا تھا ہماری لیڈر شپ اچھی ہے، قانونی سوالات پوچھ رہے تھے تاہم کسی وضاحت کی ضرورت نہیں اور نہ وضاحت دینے کے پابند ہیں، ان سوالات پر جو ردعمل آیا وہ قابل قبول نہیں۔
دوسری جانب ن لیگ کے سابق صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کی توثیق اگر عدلیہ سے لینی ضروری ہوگئی تو آئین کیسے تیار ہوگا؟
انہوں نے مزید کہا کہ اگر عدلیہ کو کسی قانون میں ابہام ہے تو نظر ثانی کے لیے اسے واپس پارلیمنٹ میں بھیجا جائے، ترامیم کا اختیار رکھنے والے ادارے کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا ریاستی نظام کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔
نوازشریف نے کہا کہ اداروں کا احترام کارکردگی کے مطابق ہوتا ہے، اگر ادارے آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیں تو ان کی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا بصورت دیگر تنقید کا سامنا ہوسکتا ہے۔
یاد رہے کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری سے پہلے عدالت سے نااہل قرار دیا گیا شخص کسی سیاسی جماعت میں عہدے کا اہل نہیں ہوسکتا تھا اور پنامہ یس میں نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف وزارت عظمی کے ساتھ ساتھ پارٹی سدارت سے بھی نااہل ہو گئے تھے۔
نواز شریف کو دوبارہ پارٹی صدر بنانے کے لیے مسلم لیگ ن نے اکتوبر 2017 میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی شق 203 میں ترمیم کی جس کے بعد نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کی صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔
اس ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔