رات 2 بجے تک نعیم ، کریم ،حکیم اور شمیم ڈیوٹی کر یں گے پھر دوسرے ساتھی ،، سب نے باآواز بلند کہا ۔۔یس سر! نعیم نے اپنی نبدوق کے قبضے میں رکھے ہاتھ کو اور بینج لیا اور ایک اور یس سر کہا ۔۔ شام کا کھانا آگیا سب نے کھالیا اور بندوق اُٹھا کے اگلے مورچوں کی طرف چلے ۔آسمان پر بادل تیر رہے تھے ۔۔۔۔بڑی عید آنے میں صرف ایک رات باقی تھی۔ ان سب سپاہیوں کے گھروں میں ہل چل تھی عید کی تیاریاں تھیں۔ بچے مسرور تھے۔ نعیم کا ’’چاند‘‘جو صرف 3 سال کا تھا ۔۔۔توتلی زبان تھی۔ گلاب چہر ہ تھا۔ نازک کلائیاں تھیں ۔چھیریرابدن تھا ۔وہ جو کپڑا پہنتا نعیم کی آنکھوں میں سجتے ۔پاک سرزمین کی دور ویران سرحد تھی۔ دشمن کی در اندزی کا خطرہ تھا۔ جگہ ویران تھی۔ ہر نیٹ ورک سے دور تھی ۔نعیم مورچے میں گھسا ۔ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ نعیم چہرہ دشمن کی سرحدکی طر ف کر کے بیٹھ گیا ۔اس کی بندوق کے قبضے پر اس کا ہاتھ تھا۔ ہر مورچے میں دو دو جوان تھے۔نعیم اوشمیم ایک مورچے میں تھے۔ ا ن کے درمیاں پہلے آرام کرنے پر جھگڑ ا ہوا۔ دونوں پہلے آرام کر نے پر راضی نہ تھے۔ہر ایک کی خواہش تھی کہ ساتھی پہلے آرام کرے۔ چاند آسمان پر ہنس رہا تھا۔ شمیم نے دونوں مٹھیاں نعیم کی طرف کر دی ۔۔ ٹاس کرتے ہیں ۔۔۔دایاں مٹھی لیتے ہوکہ بائیاں ۔۔ ایک کنکری دبی ہے ۔نعیم نے دایاں لے لی اور ٹاس جیت لیا۔شمیم کو اب آرام کرنا تھا۔ دشمن سامنے تھا ۔نعیم نے ا پنی بندوق کو بوسہ دیا ’’ تم میری زندگی ہو ‘‘ شمیم کی آنکھ لگی تونعیم بہت ماضی میں چلا گیا ۔خوابوں کا جزیر ہ تھا ۔یادوں کی کتاب تھی ۔۔ سلیمان کے گھر نعیم پیدا ہوا ۔غربت تھی۔ گھر میں چراغ جلاکہ نہ نہ جلانعیم کو یادنہیں ۔۔۔سکول جانے سے پہلے وہ ساتھی بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے ۔برف پڑی ہوتی۔ بچے دو گروپو ں میں تقسیم ہوتے ۔برف کے گولوں سے جنگ لڑا کرتے ۔۔ ہر روز بھارت ہار جاتا پاکستان جیت جاتا ۔۔اسی طرح مختلف مقابلے ہوتے۔۔ سکول گئے تو استاد کلاس روم میں کہا کرتا۔۔ بچو! اگر اسلام ،دین ،ملک و قوم اور عز ت وآبرو کے لئے جان دینی ہوتو دے دوْ۔۔ ہمارے سپاہی سرحدوں پر جاگ رہے ہیں اس لئے ہم یہاں پر آرام سے سوتے ہیں ۔وہ ہمارے محافظ ہیں ۔وہ ہماری خوشحالی اور آرام کے لئے اپنا آرام قربان کرتے ہیں۔اس وقت انہیں احساس نہ ہوتا۔ کہ جان دینا کیا چیز ہے ’’جان دیا‘‘ کس طرح جاتاہے ۔سکول کے کمرے میں استاد کی باتیں سن کر یوں لگتا کہ وہ دشمن سے گھتم گھتا ہورہے ہیں جان دے رہے ہیں۔۔ میٹرک پاس کیا تو باپ کی آنکھوں میں ائر ی افسردگی نے اس کو فکر معاش کی طرف کھینچ لایا۔ فوج میں بھرتی ہوا ۔ برسر روزگار ہوا تو شادی بھی ہو گئی۔ وسیم جیسا چاند بھی آگیا ۔بوڑھے ماں باپ ہے اور وہ ان سے دور اس ویرانے میں مورچے میں پڑا جاگ رہا ہے۔۔عید کی رات ہے ۔۔۔ اس کو غصہ آیا ۔۔ کہا ۔ یہ کیسی زندگی ہے۔غمی خوشی میں سب سے دور، اپنوں سے دور ،اپنے چاند سے دور ،اپنی زندگی ’’ سمیرا ‘‘ سے دور ،اپنی ماں کی گودی کی خوشبو سے دور ،ابو کونئے کپڑے پہنے کے بعد دیکھنے سے محروم ،وسیم کو نئے کپڑوں میں دیکھ کر اس کی آنکھوں پہ بوسے دینے سے دور ،، ہر خوشی سے محروم ۔۔ ہر آرزو کا قتل ۔۔ یہ کیسی زندگی ہے۔ لوگ آرام سے سورہے ہیں ۔نیند کے مزے اڑا رہے ہیں ۔۔۔۔امن کی چادر پاک وطن کی فضاؤں کو ڈھانپی ہے ۔ میں سرحد میں۔۔۔ مورچے میں۔۔۔ ۔اس مورچے میں امن کہاں ہے ۔۔۔خوف ہے ۔دشمن کی گولی آگے سے سرسراتی ہوئی آئے گی توسینے سے پار ہوجائے گی ۔مرجاؤں گا ۔وسیم یتیم ہوجائے گا سمیرا کا سہاگ لٹے گا ۔آہ ۔۔ وہ میری زندگی ہے۔۔ میری آرزو ہے۔ مجھے مجھ سے کہیں گی کہ کیوں مجھے اکیلی چھوڑ گئے ۔اف: وہ میری قبر پہ آئے گی تو اس کا چاند سا چہر ہ بجھا بجھا سا ہوگا۔ریشمی ذلفیں گرد الود ہونگی بلوریں آنکھوں میں محبت کی چمک کی جگہ آنسو ہونگے ۔شادابی گا ل ویران ہونگے ۔۔ اف میری ماں آہ کرے گی ۔میرے ابو دل پہ ہاتھ رکھے گا ۔۔ وہ بندوق مورچے کی دیوار سے ٹکا دیتا ہے ۔ یہ کیسی زندگی۔۔ رات 12 بجے ہیں شمیم جاگتا ہے ۔تو نعیم نیند کی آغوش میں چلا جاتاہے۔خوا ب کے جزیروں میں چلا تا ہے ۔۔دیکھتا ہے ۔ کہ پاک سرزمین کے ہر گھر میں شادمانی ہے۔ بچوں کی آنکھوں میں مسرت ہے ۔بچیاں عید کی تیاریوں میں ہیں ۔بوڑھے اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں۔ ہر گھرمیں قربانی کے جانورموجودہیں ۔اس کا وسیم اچھل کودرہا ہے۔اس کی سمیرا ہنس رہی ہے۔۔ منظر بدلتا ہے ۔ ایک وسیع وعریض میدان ہے ۔آسمان پر کالے بادل ہیں۔ہتھیار ہیں ۔گولہ بارود ہے پوری فوجی دانت پیس رہی ہے۔ ایک کالا کلوٹا جنرل کھڑا ہے ۔خطاب کرہاہے۔۔۔ ۔ اس پاکستان کو صحفہ ہستی سے مٹادو۔۔ اٹھوہر گھر میںآگ لگادو۔۔ بچوں کو کچل دو۔ عورتوں کو آگ میں ڈال دو ۔بڑوں کوتہیہ تیغ کردو۔ اس سرزمین کو روند ڈالو ۔ پورا ہندوستان یہی چاہتا ہے۔ اس کے منحوس الفاط منظر بن کر سپاہی کی آنکھوں کے سامنے اجاتے ہیں۔۔گولہ بارود کی بدبو ہے۔اس کے شہر جل رہے ہیں۔اس کا وسیم کچلدیا گیا ہے ۔اس کی سمیرا کو پکڑکر آگ میں پھینکا جارہا ہے۔گھروں پہ آگ برس رہی ہے ۔وہ لرز کر جاگ اُٹھتا ہے ۔۔۔دیکھتا ہے کہ خواب ہے ۔۔ وہچیخ کر کہتا ہے۔ وسیم ہنسو بیٹا ۔مسکراؤ ۔آرام سے سو جاؤ ۔تیراا ابو دشمن کی سرحد پہ جاگ رہا ہے۔ بیٹا سب کو بتاؤ کہ خوشیاں منائیں ۔تیر ے ابو کا مضبوط ہاتھ اپنی بندوق کی لبلبی پر ہے وہ دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جاگ رہا ہے ۔اپنی دادی کو بتاؤ کہ آرام سے جائے نماز پہ سجدے میں گرجائے اور اس پاک سرزمین کی سلامتی کے لئیے گڑگڑائے۔ ۔سمیرا جاگ جاؤ ۔ گھر کی صفائی کرو۔ نماز پڑھو ۔میرے وسیم کو جگاؤ اس کی آنکھوں پر بوسہ دو ۔اس کو کپڑے پہناؤ ۔میری زندگی خود بھی کپڑے پہن لو۔ملکہ بنو ۔مجھے تمہاری پاکیزہ خوبصورتی کی قسم میں دشمن کی آنکھوں میںآنکھیں ڈالے کھڑا ہوں ۔مجھے یاد کرکے افسردہ نہ ہوجاؤ ۔فخر کرو۔ کہ میں خاک وطن کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہا ہوں ۔سب کوبتاؤ کہ وہ جی بھر کے ہنسیں ۔آرام سے زندگی کی رنگنیوں میں کھو جائیں پتہ ہے کہ اگر میں یہاں پر نہ جاگوں تو وہاں پر عید نہیں ہوگی ۔دشمن کو ہماری خوشیاں پسند نہیں۔مگر دشمن کو پتہ ہے کہ میں جاگ رہا ہوں ۔اس لئے وہ خاموش بیٹھا ہے۔۔۔ سمیرا میں کبھی نہیں سو ؤں گا۔ میرا جاگنا میری عید ہے ۔اس ویران سرحد میں شیر کی طرح جاگتے رہنے میں جو مزہ ہے ۔وہ وہاں بنگلوں کے اندر کہاں ہے ۔میں زندہ قوم کا زندہ فرد ہوں اس پاک سر زمین کی حفاظت کی قسم کھائی ہے ۔میری اس قسم کے صدقے افسردہ نہ ہو ۔۔۔۔۔عید کی صبح پھوٹتی ہے دونوں نوجوان مورچے میں عید ملتے ہیں۔