288

یہ کنارِ آب کی بستیاں ۔۔۔ احسان شہابیؔ

fff2
اس کی چمکتی آنکھوں میں کبھی بھی ملال نہیں دیکھا لیکن طویل وقفے کے بعد اب کی بار جب وہ ملنے آیا تو اس کی آنکھیں سیلاب زدہ تھیں ۔ میں نے اس آشوب چشم کے بارے استفسار نہیں کیا کیوں کہ میں اس کے زخموں کو ہرا کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا چھوٹا سا خوبصورت گھر دریا کنارے واقع تھا ۔ جس میں اس کے والدین ، بیوی اور دو چاند سے بچے رہتے تھے اس نے پیسے جوڑ جوڑ کر بڑی محنت اور شوق سے یہ گھر بنایا تھا۔ میں نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کا گھر کیسے کٹ کٹ کر دریا بُردہوا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس نے خود ہی باتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ’’ پتہ نہیں نیلی چھتری والے کو آخر ہماری آزمائش کیوں منظور تھی ۔ کئی دنوں کی مسلسل بارشوں کی وجہ سے دریائے چترال میں طغیانی آگئی کناروں کی زمین گرنے لگی ایک دن صبح اٹھ کر دیکھا تو میرے گھر اور بپھرے ہوئے دریا میں صرف پانچ فٹ کا فاصلہ تھا ۔میں نے کچھ ضروری ساماں اور اہلِ خانہ کو ایک رشتہ دار کے گھر منتقل کر دیااو ر خود اپنے گھر کی تباہی کا منظر دیکھنے لگا۔ میرے کچے مکان کی دیواریں گر گئیں، چوبی دروازے اور کھڑکیاں دریا کے گدلے پانی کے ساتھ بہنے لگیں پھر میرے گھر میں موجود ساماں کی باری آئی وہ بھی ایک ایک کر کے دریا بُرد ہوئے۔ آخر میں ایک بھاری چوبی صندوق جو میری پر دادی کی اکلوتی یادگار تھی بہہ گئی میں دیکھتا رہ گیا۔ کچھ ساماں کو میں بچا بھی سکتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں ایسا نہیں کیا۔ تھوڑی دیر بعد میرے گھر کی جگہ دریا کا بپھرا ہوا پانی تھا ۔ میری کُل کائنات میراگھر تھا ۔جہاں میراساماں تھا ، میرے خواب تھے ، میری یادیں تھیں ۔ جہاں میرا بچپن گزرا تھا۔ جس کے ہر کونے سے میری محبت تھی مگر آج کچھ بھی باقی نہیں رہا، میرے بچے کسی اور کے گھر میں رہتے ہیں میرے والدین کا کوئی ٹھکانہ نہیں ‘‘ میں نے اس کی پوری کہانی سننے کے بعد ہمدردی کے دو چار بول بولنے کی کوشش کی تو اس نے کوئی دلچسپی نہیں لی ۔ مجھے احساس ہوا کہ میرے دوست کو ہمدردری کے ان فقروں سے نفرت سی ہو گئی ہے ۔یہ باتیں سُن سُن کر اس کے کان پک گئے ہیں ۔ اس کو ان امدادی ٹیموں سے بھی چڑ سی ہو گئی تھی جو گھی کا ایک ڈ بّہ یا آٹے کا ایک تھیلا دیتے وقت چہرے پر مسکراہٹ لا کر دس مرتبہ تصویر کھنچواتی ہیں لیکن کیا کریں زندہ رہنے کے لئے کیمرے کے سامنے حاتم طائی بننے والوں سے کچھ نہ کچھ تو وصول کرنا ہی پڑتا ہے ۔
چترال میں خوب سیلاب سیلاب کھیلا گیا ۔ آوازیں بہت اونچی تھیں ، نعرے بھی بڑے دلکش تھے۔ مگر کیمرے کے سامنے کھڑے ایک خانماں برباد کے ہاتھ میں آٹے کا ایک تھیلا اور چہرے پر حسرتوں کی کہانیوں کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آیا۔ کیا بحالی اسی کا نام ہے ۔ اگر حکومت متاثریں کی واقعی بحالی چاہتی ہے تو ان کو گھر بناکے دے جن کے گھر سیلاب میں بہہ گئے ۔
چترال میں میدانی علاقے نہ ہونے کے برابر ہیں یہاں صدیوں کی جعرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے پہاڑوں اور ندّیوں کی مٹی تودے کی شکل میں دامن میں آکر پھیلی ہے جس کے اوپر انسانی بودو باش قائم ہے اور وادی کے بیچوں بیچ دریا ئے چترال ہے جو سینکڑوں ندیوں کا پانی ساتھ لے کر بڑی تندہی کے ساتھ جنوب کی طرف بہتا ہے جب اس میں طغیانی آجاتی ہے تو آس پاس کی بستیوں کو شدید خطرہ لاحق ہو تا ہے ۔ لوگوں کے کھیت اور جنگل کٹ کٹ کر گرتے ہیں ، گھروں کو بہا کر لے جاتا ہے ۔ عالمی حدت اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے
پہاڑوں کے گلیشئر تیزی سے پگل رہے ہیں جس کی وجہ سے ہر سال سطحِ آب میں اظافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
چترال کی جنت نظیر وادی کے لئے دریائے چترال میں سال بہ سال بڑھتی ہوئی یہ طغیانی کچھ نیک شگون نہیں جو سا حلوں سے سر پٹک کر چترال کی مُٹھی بھر مٹی کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے لیکن اربابِ اقتدار و اختیار اس باب میں خاموش ہیں جہاں کہیں بند وں اور حفاظتی پُشتوں پر کام ہو بھی رہا ہے تو وہ غیر معیاری اور غیر تسلی بخش ہے ۔ اگر چترال کو بہہ جانے سے بچاناہے تو جہاں کہیں دریا کی وجہ سے کٹاؤ کا عمل تیز ہے وہاں مضبوط حفاظتی پُشتے تعمیر کیے جائے۔یہ زمین جہاں ہم رہ رہے ہیں کوئی میدان نہیں بلکہ فلک بوس پہاڑوں کا دامن ہے۔ دریا کی سرکش موجیں ہر لمحہ اس دامن سے الجھتے رہتے ہیں اور دریا اپنا کام دھیرے دھیرے کرتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں