پشتوکامشہورمقولہ ہے ’’زورمہ اَزمیہ زورپہ اَمیلوکمیگی ‘‘یعنی زورآزمائی نہ کرواس سے زور کم ہوجاتاہے ۔2013کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دھاندلی کاالزام لگاکرتحقیقات کے لئے قومی اسمبلی کے جن چار حلقوں کو کھولنے کامطالبہ کیاتھاان میں ۱ین اے 122لاہوربھی شامل تھاجہاں عام انتخابات میں نون لیگ کے امیدوارسردارآیازصادق نے انہیں شکست سے دوچارکیاتھا۔اپنے مؤقف پر ڈٹے رہتے ہوئے مطالبہ منوانے کے لئے پی ٹی آئی نے شہراقتداراسلام آباد میں126دنوں پر محیط ملک کی تاریخ کاطویل ترین احتجاجی دھرنابھی دیا۔جس کے نتیجے میں حکومت وقت جوڈیشل کمیشن کے قیام پر مجبورہوئی مگرانتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے قائم ہونے والے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سے تحریک انصاف کوخاطرخواہ کامیابی نہیں ملی البتہ این اے 122 کا معاملہ الیکشن ٹریبونل میں بھی زیرسماعت تھااور پچھلے ماہ الیکشن ٹریبونل نے فیصلہ سناتے ہوئے عام انتخابات میں بدانتظامی کوبنیادبناتے ہوئے مذکورہ حلقے میں ضمنی انتخابات کرانے کا حکم صادر کیا۔اگرچہ الیکشن ٹریبونل کافیصلہ چیلنج کرنے کا سردارآیازصادق اور ان کی جماعت کوحق حاصل تھامگر نون لیگ کی قیادت نے معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے روبرولانے کی بجائے عوام کی عدالت میں جانے کاحتمی فیصلہ کرتے ہوئے آیازصادق کوالیکشن لڑنے کی ہدایت کی جبکہ تحریک انصاف نے عبدالعلیم خان کوان کے مقابلے میں اتارا۔لگ بھگ پانچ ہفتوں تک انتخابی مہم چلائی گئی ۔نون لیگ کے وزراء اورممبران قومی اسمبلی جن میں حمزہ شہباز،خواجہ سعدرفیق،عابد شیرعلی ،ماریہ میمن اور کئی دیگر نے انتخابی مہم میں بھرپورحصہ لیادوسری جانب اپنے امیدوارکوکامیابی سے ہمکنارکرانے کی غرض سے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان خودمہم چلاتے دکھائی دیئے ۔دونوں جماعتوں کے قائدین نے ایک دوسرے پرنہ صرف الزامات کے خوب تیر برسائے بلکہ الیکشن میں اپنی کامیابی کے پیشگی دعوے بھی کرتے سنائی دیئے ۔اگرچہ 11اکتوبرکواین 144اوکاڑہ اور پی پی 147لاہورمیں بھی ضمنی انتخاب ہورہاتھامگردونوں جماعتوں کی تمام تر توجہ این اے 122لاہور پر مرکوزتھی کیونکہ یہ الیکشن دونوں جماعتوں کے لئے انتہائی اہمیت کاحامل تھا اگرچہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر نون لیگ ہار جاتی تواس کا مطلب یہ نہیں تھاکہ عددی لحاظ سے نون لیگ کی حکومت پر کوئی اثرپڑتایاپی ٹی آئی حکومت میں آجاتی اور اگر پی ٹی آئی کاامیدوار ہارجاتا توایسانہیں تھاکہ پی ٹی آئی نے ختم ہوناتھا تاہم نون لیگ کی شکست کی صورت میں انتخابی دھاندلی سے متعلق پی ٹی آئی کے مؤقف کو تقویت ضرورملتی جبکہ نون لیگ کے امیدوار کی کامیابی کی صورت میں پی ٹی ئی کاالزام محض الزام ہی ثابت ہوجاتا۔یہی وجہ تھی کہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کے لئے سرتوڑکوششوں میں لگی ہوئی تھیں اوران کی سرگرمیوں نے اس الیکشن کوغیرمعمولی بنادیاتھا، سیاسی درجہ حرارت عروج پر تھا،ملک بھر کے عوام کی نظریں اس پر لگی ہوئی تھیں اور لگ یہ رہاتھاکہ یہ کسی ایک حلقے کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا الیکشن ہے۔دعوے اپنی جگہ تاہم نون لیگ کے امیدوار سردار آیازصادق نے کپتان کے کھلاڑی عبدالعلیم خان کو شکست دے کراس حلقے سے اپنی کامیابی کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ۔لیگی رہنماء اور شہبازشریف کے فرزندحمزہ شہبازنے انتخابی نتائج آنے کے بعد لاہورکے علاقہ گڑھی شاہومیں پارٹی ورکرزسے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج عوامی خدمت کی سیاست جیت ہو ئی ہے اورعوام نے ضمیرکے سوداگروں کو یکسر مسترد کردیا۔ ان کے مطابق انہیں یقین تھاکہ جذبہ جیتے گا اورقبضہ ہارے گا جبکہ آیازصادق کوکامیابی سے ہمکنارکرکے نواز شریف کے مؤقف پر عوام نے پھر مہر لگا دی ہے ۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ کومشورہ دیاکہ وہ خیبرپختونخوامیں عوام کے مسائل پر توجہ اوردہشت گردی کے خلاف پاک فوج کاساتھ دیں۔ دھرنا اور دھاندلی بہت کھیل لی آو اب پاکستان کی تعمیر کریں،ہار جیت ہوتی رہتی ہے جو جمہوریت کا حسن ہے تاہم ہم جیتیںیا ہاریں پاکستان کو ہمیشہ جیتنا چاہیے۔انہوں نے عمران خان کومخاطب کرتے ہوئے دعوت کی کہ وہ پاکستان سے غربت اور جہالت کے خاتمے کے لئے ہمارا ساتھ دیں اور 2018میں جوانتخابی میدان سجے گا اسکی تیاری کریں۔اسی طرح کے خیالات کااظہارضمنی الیکشن کامعرکہ جیتنے والے آیازصادق نے بھی کیاانہوں نے کہا کہ میں آج کے دن میڈیااور عوام کے توسط سے یہ پیغام عمران خان تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ خدار نئی نسل کو نفرت اور دوریاں نہ سکھائیں ان کو وہ سب نہ سکھائیں جو ہم اپنے بچوں کو نہیں سکھانا چاہتے ۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے الیکشن آفس میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنماؤں جہانگیر ترین ،چوہدری محمد سرور اورعلیم خان نے کہاکہ ہم نے آج ثابت کر دیا کہ لاہور نون لیگ کا قلعہ نہیں ہے جن کوزعم تھاکہ لاہوران کاتخت ہے ہم نے تخت سے دوپائے نکال دیئے ہیں باقی دو بھی نکال دیں گے۔ الیکشن ہارکربھی ہم جیتے ہیں کیونکہ پی پی 147 پر پی ٹی آئی کے امیدوار نے کامیابی حاصل کی جبکہ این اے 122پر نون لیگ کی لیڈ بھی بہت کم رہ گئی ہے جس سے ہمیں توقع ہے کہ مستقبل میں یہ نشست پی ٹی آئی کی ہوگی ۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے ووٹر لسٹوں کے حوالے سے تخفظات کااظہارکیااورواضح کیاکہ وہ اس حوالے سے تحقیقات کریں گے اور ثبوت ملنے پر متعلقہ اداروں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کریں گے۔قطع نظراس کے کہ عام انتخابات کی کیاتھی حقیقت اور کیاتھافسانہ ،بہرحال اس حوالے سے الیکشن کمیشن،جوڈیشل کمیشن اور الیکشن ٹریبونل کے فیصلے بھی سامنے آئے اور ضمنی الیکشن بھی ہوااب اس معاملے میں مزید الجھنے اورالزام درالزام کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ان بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے جن کے حل کی خاطر عوام نے پی ٹی آئی اور نون لیگ کو ووٹ دے کر منتخب ایوانوں میں پہنچایاتھا۔پنجابی کا ایک مقولہ ہے کہ ’’ کیکر تے چڑھا کے ہر گھچا زخمایا‘‘ ۔ سیاست بھی شاید ایک کیکر ہے جو بھی سیاست کے میدان میں اترتا ہے مخالف فریق پر زبردستی زبانی کلامی ایسے نشتر برساتا ہے کہ زخم خود کو بھی آتے ہیں۔ یہی کرواہٹ اور زخم اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے رحجان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔