314

چترال کے سیکولر سیاسی قیادت کا المیہ….کریم اللہ

fff2

ملک کے دوسرے حصوں کی مانند چترال کے عوام کی اکثریت تکثیریت پسنداورروشن خیال ہے یہی  وجہ ہےکہ کسی بھی الیکشن میں چترال کے سیکولر ووٹوں کا تناسب مذہبی ووٹوں کے مقابلے میں ہمیشہ زیادہ رہی۔لیکن سیکولر سیاسی قیادت کی زمینی حقائق سے ناواقفیت اور سیاسی ضروریات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے زیادہ ترموروثی سیاست دان اپنی عیاری سے کامیاب ہوتے آئے ہیں تو کبھی مذہبی قوتین جدیت پسند قوتوں کے منقسم ہونے کی وجہ سے کامیاب کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں۔عوامِ چترال کی سیکولر ذہنیت کا اندازہ اس امر سے لگاسکتے ہیں کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں تمام تر اختلافات سے بالاتر ہوکر یہاں کے عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب بنایا البتہ قومی اسمبلی کی نشست ایک بار پھر موروثی سیاست دان کے قبضے میں چلی گئی۔جبکہ مذہبی جماعتین تیسرے اور چوتھے نمبر پر رہی۔

چترال کی سیکولر عوامی جماعتین:

چترال کی سب سے بڑی سیکولر سیاسی جماعت تو پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہے جو اپنی مستحکم اور ناقابلِ شکست ووٹ بینک کی وجہ سے منی لاڑکانہ کے نام سے یادکیاجاتا ہے البتہ پارٹی کے اندرونی اختلافات اور الیکشن کے وقت اوپر سے امیدواروں کو عوام پر مسلط کرنے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی منی لاڑکانہ سے کوئی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہی۔جبکہ چترال کی سیاست گزشتہ تین دھائیوں سے مذہبی جماعتوں یا موروثی سیاست دانوں کے ہاتھوں رہی۔البتہ 2013ء کے عام انتخابات میں چترال سے صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستین پاکستان پیپلز پارٹی نے جیت لیا اور یوں 1988ء کے بعد پہلی مرتبہ پی پی پی چترال سے بڑی کامیابی سمیٹنے میں کامیاب رہی جبکہ مجموعی ووٹوں کے تناسب سے پاکستان تحریکِ انصاف دوسری نمبر پر رہی۔اسکے برعکس مذہبی جماعتیں تیسرے اور چوتھے نمبر پررہی۔اس سارے تناظر میں ہم یہ کہنےمیں حق بجانب ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف چترال کی سب سے بڑی سیکولر سیاسی جماعتین ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ماضی کی طرح آج بھی چترال کی سیکولر سیاسی قوتین منتشر اور ایکدوسرے سے الجھے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں کی سیاست پر زیادہ تر چڑھتے سورج کے پوجاری موروثی سیاست دان کامیاب ہوتے رہے جبکہ بعض اوقات مذہبی قوتین بھی انتخابی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات اور چترال کی سیاست:

جونہی خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے نئے بلدیاتی نظام کے تحت مقامی حکومتوں کے لئے انتخابات کا اعلان کیا تو ایکدوسرے کے سایوں سے بھاگنے والے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے چترال کے 24 میں سے 14وارڈ مین انتخابی اتحاد قائم کیا جو انتہائی نامساعد حالات کے باؤجود آخری وقت تک برقرار رہی۔مذہبی جماعتوں کی دیکھادیکھی چترال کی سیکولر سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان تحریکِ انصاف اور آل پاکستان مسلم لیگ نے بھی اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن سیکولر سیاسی قیادت کی زمینی حقائق سے عدم واقفیت،سیاسی حالات سے نااشنائی اور زیادہ حصے داری کے مطالبے نے اس اتحاد کو برقرار رکھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ ثابت ہوئی یہی وجہ ہے کہ ان 14 میں سے 12وارڈز میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کو کامیابی ملی۔ضلع وتحصیل کونسلر کے انتخاب کے بعد جب جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان اختلاف پیداہواتو فوراَ جلتی پر تیل کا کردار اداکرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان تحریکِ انصاف اور آل پاکستان مسلم لیگ کی ضلعی قیادت نے جماعت اسلامی کے ضلعی نظامت کے امیدوار جناب مغفرت شاہ کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار مولانا عبدالرحمن کی غیر مشروط حمایت کردی لیکن مغفرت شاہ صاحب کی کامیاب حکمت عملی کے سامنے مخالفین کی ایک نہ چلی اور یوں انتہائی نامساعد حالات کے باؤجود ضلعی نظامت کا تاج مخترم مغفرت شاہ کے سر سج گیا۔

پی ٹی آئی اور پی پی پی کی قیادت سے  چند سوال:

‏اس ساری سیاسی صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کی ضلعی قیادت سے یہ درخوات پوچھتنے میں حق بجانب ہے کہ اگر انتخابات کے بعد وہ تمام نظریاتی اختلافات کو بھول کر جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کی غیر مشروط حمایت کرسکتے ہیں تو پھر ان دونوں جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ان 14وارڈز جہاں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے اتحاد قائم کیاتھا میں ملکر کیوں الیکشن نہیں لڑے؟ زیادہ حصے داری کے مطالبات اور نام نہاد اصول پرستی کی بجائے پی ٹی آئی اور پی پی پی کی قیادت حالات کادرست تجزیہ کرکے زمینی حقائق کے مطابق لائحہ عمل اختیار کرتے تو پھر بلدیاتی انتخابات کے نتائج یقیناَ مختلف ہوتے۔کیونکہ اکثر حلقوں میں مذہبی جماعتوں کے جیتنے والے اور سیکولر جماعتوں کے ہارنے والے امیدواروں کے درمیان معمولی فرق رہا۔اب جبکہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے چترال کی سیاست اور زمینی حقائق کو تشتِ ازبام کرکے رکھ دیا ہے تو پھر ان دونوں جماعتوں کی قیادت کو مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرکے آنے والے عام انتخابات کے لئے صیحح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔بصورتِ دیگر سیکولر ووٹوں کے تقسیم کا مطلب موروثی سیاست دانوں یا مذہبی جماعتوں کی کامیابی ہی ہے اگر سیکولر سیاسی قوتین عوام دوستی پر مبنی سیاست کرناچاہتی ہے تو انہیں اپنی صفوں میں انتشار کی بجائے مفاہمت کی پالیسی کے تحت منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اگر دونوں جماعتین درست سمت میں قدم نہیں اٹھائے تو ان کی کامیابی کے امکانات کم نظر آرہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں