صدا بصحرا ۔۔۔تضادات ۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ
اخباری خبروں پر غور کر کے اُن کا رس کشید کیا جائے تو کئی تضادات سامنے آتے ہیں ۔ بعض تضادات مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ مثلاََ جج پروٹوکول کی گاڑیوں کے جلوس میں آتا ہے ۔ اُس کی سیکیورٹی پر پولیس کے 100اہلکار تعینات کئے جاتے ہیں۔ کُرسی پر بیٹھ کر وہ حکم دیتا ہے کہ وی آئی پی ڈیوٹی پر متعین اہلکاروں کو واپس بلایا جائے کسی بھی شخصیت کو سیکیورٹی نہ دی جائے ۔ مثلاََ ایک جج انگریزی میں فیصلہ لکھتا ہے اور شستہ انگریزی میں فیصلہ دیتا ہے کہ دفتری زبان اردو ہونی چاہیئے کیونکہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اخبارات میں اس فیصلے کی توصیف اور تعریف ہوتی ہے۔ جب قصیدہ خوانی کا موسم گذر جاتا ہے۔ دفتری زبان کا درجہ اردو کو نہیں ملتا تو پتہ چلتا ہے کہ معزز جج نے اردو کو قومی زبان قرار دینے کا حکم انگریزی میں دیا تھا
خامہ انگشت بدنداں ہے کیا کہیئے
ناطقہ سر بگریباں ہے کیا کہیئے
عدالت کے بعض فیصلے ایسے بھی آتے ہیں جن کو سن کر دونوں فریق مٹھائی تقسیم کرتے ہیں ۔ مُنہ میٹھا کرنے کے ایک ماہ بعد فیصلہ کی کاپی مل جاتی ہے اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مٹھائی تقسیم کرنے میں ہم نے جلدی کی تھی۔ فیصلے میں کامیابی و کامرانی کا کوئی پہلو نہیں تھا۔ بعض اوقات عدالتیں ایسے فیصلے دیتی ہیں جن میں ہارجیت کا پتہ ہی نہیں لگتا ۔ ایسے ہی ایک فیصلے میں جج نے لکھا تھا ’’ ہر چند مدعی کے وکیل نے دعویٰ کے حق میں کافی ثبوت فراہم کئے، مدعا علیہ کے پاس ان ثبوتوں کو ردّ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ پھر بھی عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ مقدمے کے حقائق کو سامنے رکھ کر دعویٰ خارج کر دیا جائے ۔ اب جنہوں نے آخری جملے پر غور نہیں کیا۔ وہ کیا نتیجہ اخذ کریں گے ۔ دفتری خط و کتابت میں ایک انگریزی ترکیب استعمال ہوتی ہے ۔ اس ترکیب کا مفہوم یہ ہے کہ مجاز حاکم بخوشی آپ کو ترقی دیتا ہے۔ مگر تضاد اُس وقت سامنے آتا ہے جب کسی کو نوکری سے نکالتے وقت یہ ترکیب استعمال کی جاتی ہے ۔ مثلاََ سیکشن افیسر جو کاغذ منظور کرنے کے لئے اوپر بھیجتا ہے اُس میں لکھتا ہے کہ مجاز حاکم نہایت مسرت کے ساتھ آپ کو ملازمت سے نکالنے کا حکم دیتا ہے۔ اب کسی کو ترقی دیتے وقت مسرت اور خوشی ہوتی ہوگی لیکن کسی کو ملازمت سے نکالتے وقت مجاز حاکم کو کس خوشی میں مسرت حاصل ہوئی ؟ گذشتہ روز کے اخبار میں ایک ایسی خبر آگئی جس کا مفہوم دو دھاری تلوار کی طرح ہے ۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پشاور کے دورے میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کا نام لیکر ان کی تعریف کی اور کہا کہ عدالت کسی کو سلام پیش کرنے پر غور کرتی تو آپ دونوں کو سلام پیش کرتی ۔ اب اس طرح کے ریمارکس پر گفتگو ہورہی ہے ۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے مٹھائی تقسیم کی ہے کہ چیف جسٹس نے اُن کی تعریف کی ہے ۔ افسر شاہی کے کل پرزے ایک
دوسرے کا منہ میٹھا کررہے ہیں کہ چیف جسٹس نے بیوروکریسی کو خراج تحسین پیش کیا۔ اگر افسر شاہی کے یہ کل پرزے نہ ہوتے تو جانے کیا قیامت بیت چکی ہوتی ! تحریک انصاف کی قیادت اس بات پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی کہ بیوروکریسی ہماری ہے ۔ ہم نے ان کو لایا ہوا ہے۔ ہم نے ان کو رکھا ہوا ہے۔ ہمارے افیسروں کی تعریف گویا بالواسطہ ہماری تعریف ہے۔ گویا جج نے ایک تیر سے دو شکار کیا ۔ ایک بزر جمہر نے دورکی کوڑی لاتے ہوئے کہا ہے کہ جج کی طرف سے خیبر پختونخوا کے دو افیسروں کو سلام پیش کرنے کی خواہش کا اظہار وفاق اور باقی صوبوں کی حکومتوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ کسی دوسری جگہ ایسی بیوروکریسی نہیں۔ سب سے نرالی بات ہمارے دوست سید شمس النظر فاطمی نے کی ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ دو پشتون افیسروں کی اس طرح خراج تحسین پیش کر کے جج نے منظور پشتین کو کرارا جواب دے دیا ہے کہ دیکھو میرے عزیزو ! پشتونوں کا تحفظ ہم کررہے ہیں تم نہیں کر رہے ہو۔ پشتونوں کا تحفظ یہ ہے کہ پشتون افسروں کو خراج تحسین پیش کرو۔ یہ کہاں کا تحفظ ہے کہ تحفظ کے نام پر جلوس نکالو اور جلسے کر کے ’’ گردی ، دردی ، وردی ‘‘ کہتے پھرواپنا عاقبت بھی برباد کرو اور ملک کی ساکھ بھی خراب کرو۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں ، ویسے چھوٹا بڑی بات یہ ہے کہ چار چیزیں چار آدمیوں کو زیب نہیں دیتیں ، اخباری بیان جرنیل کو زیب نہیں دیتا ، مکھن پالش سیاست دان کو زیب نہیں دیتا، عدالتی فیصلے سے ہٹ کر ریمارکس اور تبصرہ کسی جج کو زیب نہیں دیتا اور گرتو بُرانہ مانے ’’ ون وے ٹریفک ‘‘ صحافی کو زیب نہیں دیتی۔ مگر مشہور قول ہے یہاں گنتا کون ہے؟ شاعر نے سو باتوں کی ایک بات کہی ہے
وہ آئینے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے
کسی کسی کو خدا یہ کمال دیتا ہے