مضامین
ڈھول،ڈھونڈورا اور سیاست
شمس الرحمن تاجک
ڈھول پیٹنااگر باقاعدہ فن ہے، تو ڈھونڈورا پیٹنا ایک پروفیشن۔ہمارے پیارے ملک میں یہ دونوں فن ہر پلیٹ فارم خصوصاً سیاسی پلیٹ فارم پر بے تحاشا استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس فن میں مہارت کے لئے چند لوازمات کا ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ان لوازمات میں بوقت ضرورت جوڑ توڑ کے قابل یعنی لچکدار نظریات، مردہ ضمیر، ٹرک بھر کے بے شرمی، ہٹ ڈھرمی، پرخلوص رشتوں اور تعلقات سے دوری، سندیافتہ چمچے ڈھونڈنا اور پالنا، دوسروں کی تصدیق شدہ چمچوں پر قبضہ کرنا اور ان کو پروٹوکول ایسے دینا جیسے وہ فرشتے ہوں، کسی بھی ڈھونڈرا اور ڈھول پیٹنے والے کے لئے از بس ضروری ہیں۔ جب یہ سب لوازمات پورے ہوجائیں پھر کسی بھی چوراہے اور چوک پر چلے جائیں آپ کے لئے اونچائی پر اسٹیج بنایا جاچکا ہوگا۔ اسٹیج کے سائز سے آپ اندازہ لگالیں کہ عوام کتنے بے وقوف اور کم عقل ہیں جوہرمداری کو مسیحا سمجھتے ہیں۔ لہذا آپ بھی مسیحا ہیں ! مسیحا کے سامنے دست سوال دراز کیے جاتے ہیں ان سے سوال پوچھنے والا کون؟۔ چونکہ بطور انسان جو خوبیاں یا عادتیں ہونی چاہئے اس سے آپ اپنے آپ کو الگ کرچکے ہیں لہذا اسٹیج پر کھڑے ہو کر مارکیٹ میں وائرل ٹرینڈ پر بے تکاں بولنا شروع کردیں۔ آپ کچھ بھی بولیں گے شرطیہ تالیاں بجیں گی۔یہ ہماری تاریخ ہے کہ اسٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں سے ’’مرنے‘‘ کا وعدہ لو آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا ۔ وہ تالیاں بجائیں گے۔ حالانکہ آپ کے اسٹیج یا تخت طاوس کے گرد کھڑے چوپائیوں کو پتہ ہوتا ہے کہ آپ غلط بول رہے ہو۔ چونکہ آپ ڈھونڈورا پیٹنے کے ماہر ہیں اس لئے ضروری نہیں کہ آج آپ جس کی تعریف کررہے ہیں کل بھی آپ کی منظور نظر وہی شخص ہو۔دوسرے دن اسی چوک پر مجمع لگا کر آپ کسی اور کو فرشتہ ثابت کریں۔ پوچھنے والا کوئی نہیں۔
17 اگست 1988 کو جنرل ضیاء الحق ہوائی حادثے کا شکار ہوئے۔ اس وقت تک مجھ سمیت پتہ نہیں کتنے لوگوں کو کامل یقین تھا کہ بھٹو زندہ ہیں۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد بے نظیر بھٹو کی مقبولیت کا گراف جب اوپر بلکہ بہت زیادہ اوپر جا رہا تھا تو گاوٌں کے تقریباً 90 فیصد لوگوں کو یہ یقین تھا کہ بے نظیر بھٹو کی الیکشن کمپئن بھٹو ہی چلا رہے ہیں ۔ لوگ بھٹو کی مستقبل کی پلاننگ تک بتاتے تھے کہ جیسے ہی بے نظیر انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کریں گے بھٹو اپنی روپوشی کی زندگی ختم کرکے عوام میں آئیں گے ضیاء الحق کے بعد بھٹو کے لئے ایک بار پھر میدان صاف ہوگیا ہے۔ لہذا ہم مزید کئی سالوں تک گاؤں کی ہر گلی کوچے میں بھٹو کو ڈھونڈتے رہے۔ وہ کسی گلی میں موجود نہیں تھے ، بہت عرصے بعد پتہ چلا کہ بھٹو صاحب کے زندہ ہونے کا صرف ڈھونڈورا پیٹا جارہا تھا وہ بذات خود اس دنیاسے کئی سال پہلے یہ کہہ کررخصت ہوچکے تھے کہ ’’ میری پارٹی کو زندہ سے زیادہ مردہ بھٹو کی ضرورت ہے‘‘۔ پھر ڈھول او رڈھونڈورے کا کمال آج تک چل رہا ہے۔ حالانکہ بھٹو کے قتل کو حلال قرار دینے والے افراد آج بھٹو کی پارٹی کا حصہ ہیں اور ، ڈھول اور ڈھونڈورے کے ذریعے بھٹو کو زندہ ثابت کرنے پر اب بھی تلے ہوئے ہیں۔
ڈھول اور ڈھونڈورے کی ایک نئی کہانی پانامہ والی بھی ہے۔ اس کہانی کو غلط ثابت کرنے کے لئے جتنے دن کیس چلا۔ اتنے ہی دن سینکڑوں کے حساب سے ڈھونڈورچی عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا کے سامنے سیاہ کو سفید ثابت کرنے کے لئے جو کچھ کرتے رہے اس کی توقع کیا کسی ہوش و حواس کے مالک انسان سے رکھی جاسکتی ہے۔ عوام نام کے گدھے اب اتنے بھی گدھے نہیں رہے۔ ان کو کچھ اور نہیں تو کم از کم نفرت سے چینل بدلنا تو آتا ہے۔ اگر آپ ہر چینل پر نظر آئیں گے تو پھر دوسر ے ممالک کے چینلز تو موجود ہی ہیں۔ ان سب کے باوجود عدالتی کارروائی کے بعد دونوں فریق اپنے اپنے ڈھول لے کر گھنٹوں بیٹھ جاتے تھے اور اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے کیا کیا جھوٹ نہیں بولے، دل کھول کر بولے۔اتنی شدت سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ غریب عوام کنفیوژن کا شکار ہوگئی ان میں سے صحیح کون ہے اور غلط کون۔ وہی کنفیوژن ہے کہ آج بہت کچھ ثابت ہونے کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ ڈھول اور ڈھونڈورے والوں کا ہی کمال ہے۔
ڈھول اور ڈھونڈورا والوں کا ایک نیا بینڈ بھی مارکیٹ میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ جتنی تیزی سے عوام میں مقبول ہوگیا تھا اب اتنی ہی تیزی سے انتخاب جیتنے والوں میں مقبول ہورہا ہے۔ آخر کیوں نہ ہو ۔ آپ پر کوئی بھی کیس بنا ہو۔ کسی بھی سطح کے کرپشن کا غلط یا صحیح آپ حصہ رہے ہوں مگر جیسے ہی اس نئے بینڈ کو جوائن کرتے ہیں ۔ دودھ کے دھلے بن کر نکلتے ہیں۔ فرشتے آپ کی قسمت پر عش عش کراٹھتے ہیں۔
اب چونکہ انتخابات کا موسم شروع ہوگیا ہے اس لئے ڈھول اور ڈھونڈورے والوں کی چاندنی ہوگئی ہے۔ ایسے ایسے ساز دریافت ہورہے ہیں جس سے ڈھول والے گدھے اور گھوڑے کی تمیز کئے بغیر جس کو چاہیں فرشتے ثابت کریں۔ جس کے سر پر چاہیں تاج سجائیں اور جسے چاہیں خاک میں ملا دیں۔ مخلوق خدا پھر سے شش و پنچ میں گرفتار ۔ کہ کس کا ساز صحیح ہے اور کس کے ڈھول کی آواز اچھی۔ اس سارے منظر میں ہمارے نمائندے بھی بہت سارے کام کرتے ہیں ان کو کم از کم اس بات کی شاباشی تو دینی ہی چاہئے کہ وہ کم از کم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ عوام کو زندگی کی ہر سہولت سے جتنی ممکن ہو دور رکھا جائے تاکہ وہ ہر چھوٹے مسئلے کے لئے ان کی طرف دیکھیں اور ان کی ملازمت چلتی رہے۔ رہی بات عوام کی تو عوام نے بھی آج تک ڈھول کی آواز اور ڈھونڈورچی کی مہارات کو ووٹ دیا ہے آئندہ بھی ان سے یہی توقع ہے۔