سب اچھا کا موسم کب آئے گا۔۔۔ ؟ (پروفیسررفعت مظہر)
بابا رحمت کا عصائے عدل گردش میں ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی کی شامت آئی ہوتی ہے۔ وہ سارے کام جو حکومتوں کو کرنے چاہیءں، بابارحمت سرانجام دے رہے ہیں اور اِس کا اقرار وہ خود بھی کرتے ہیں۔ سوال مگر یہ کہ حکومت بیچاری کرے بھی تو کیا؟ ۔ اُس کی رِٹ تو چھینی جا چکی۔ ہماری عدلیہ نے اُس کے پاس چھوڑا ہی ’’کَکھ‘‘ نہیں سوائے ڈنڈے کے خوف کے۔ وہ جو کبھی شیروں کی طرح دھاڑتے تھے، اب کبوتروں کی طرح سُکڑے ،سہمے، آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ البتہ میاں نوازشریف آج بھی اُسی طرح دھاڑتے نظر آتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں یا تو ذوالفقار علی بھٹو کو دھاڑتے دیکھا یا پھر الائم ومصائب میں گھِرے میاں نوازشریف کو۔ جلاوطنی کاٹنے کے بعد جب میاں صاحب وطن لوٹے تو ایک دِن اُنہوں نے پرویز مشرف کی بغاوت کا حوالہ دیتے ہوئے اَزراہِ تفنن کہا کہ لوگ کہتے تھے ’’قدم بڑھاؤ نوازشریف ، ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب میں نے قدم بڑھایا تو پیچھے کوئی بھی نہ تھا‘‘۔
1999ء کی ’’مشرفی بغاوت‘‘ کے بعد بہت سے اپنوں نے بھی نہ صرف ساتھ چھوڑ دیا بلکہ اُن کی زبانیں زہر بھی اُگلنے لگیں۔ گویا
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
چودھری برادران اور شیخ رشید سمیت بہت سے ’’پنچھی‘‘ مشرفی آمریت کی پناہ میں فلاح کی راہ ڈھونڈنے لگے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اب وہی موسم پھر سے لوٹ آیا ہو۔ تب بھی نون لیگ کی حکومت تھی اور اب بھی ہے۔ تب بھی شریف فیملی مقہور ہوئی اور اب بھی قہر کے گہرے سیاہ بادل اِسی خاندان پر چھائے نظر آتے ہیں۔ تب میاں صاحب نے کوئی نعرہ نہیں دیا تھالیکن اب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جیسا نعرہ مقبول ہو رہا ہے۔اِس نعرے کی مقبولیت کا پتہ تو 2018ء کے عام انتخابات کے بعد ہی چل سکتا ہے لیکن ’’پنچھی‘‘ تو اب بھی اُڑتے چلے جا رہے ہیں۔ ڈال ڈال اور پات پات گھومنے والے اِن بھنوروں کے کئی نام ہیں۔ کوئی اِنہیں’’لوٹا‘‘ کہتا ہے تو کوئی ’’گھوڑا‘‘۔ کسی نے اِنہیں ’’ضمیرفروش‘‘ کہا تو کوئی پکارا کہ یہ تو ’’چوہے‘‘ ہیں جو جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے سمندر میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ اقبالؒ نے کہا تھا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
لیکن اِن ضمیر فروشوں میں غیرت کہاں اور جس میں غیرت نہیں اُس سے ملک وقوم کی بہتری کی توقع رکھنا عبث، احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف۔یہ تو مُردار خور ’’گِدھ‘‘ ہیں جنہیں سوائے اپنے پیٹ کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔
قصور اِن ’’ضمیرفروشوں‘‘ کا نہیں، ہرگِز نہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہمہ وقت اِن ’’گندے اَنڈوں‘‘ کے لیے اپنا’’ دامن وا‘‘ رکھتی ہیں ۔ اِس سے مبّرا کوئی بھی نہیں، نوازلیگ نہ تحریکِ انصاف اور نہ ہی پیپلزپارٹی۔جب یہ پنچھی اُڑ جاتے ہیں تو پھر سبھی سیاسی جماعتیں ’’چیں بچیں‘‘ ہونے لگتی ہیں۔ کیا اِن کو نہیں معلوم کہ
میکدہ اِن کا ٹھکانا ، نہ حرم دروازہ
بادہ کَش اُڑتی ہواؤں کی طرح ہوتے ہیں
اگر ساری سیاسی جماعتیں صرف ایک نکتے پر متفق ہو جائیں کہ کسی بھی صورت میں اِن ضمیرفروشوں کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا تو تالاب اِن گندی مچھلیوں سے صاف ہو سکتا ہے اور ملک وقوم کی بہتری بھی اِسی میں ہے لیکن سیاسی جماعتیں ایسا کریں گی نہیں کیونکہ وہ تو جیتنے والے ’’گھوڑے ‘‘ پر داؤ کھیلنے کی عادی ہیں۔ جب کچھ پنچھی نوازلیگ سے اُڑے تو میاں صاحب نے فرمایا ’’یہ ہمارے اپنے تھے ہی کب؟۔ یہ تو اِدھر اُدھر سے آئے تھے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جب میاں صاحب کو خوب علم تھا کہ یہ سب ’’بکاؤ مال‘‘ ہیں تو پھر اِس ’’کَچرے‘‘ کو سینے سے لگایا ہی کیوں؟۔
آجکل اِن ضمیرفروشوں کا رُخ تحریکِ انصاف کی طرف ہے کیونکہ وہ اِس غلط فہمی میں مبتلاء ہیں کہ اگلی حکومت تحریکِ انصاف ہی کی بنے گی۔ 30 اکتوبر 2011ء کو جب مینارِ پاکستان کے سائے تَلے تحریکِ انصاف نے عظیم الشان جلسہ کیا تو ہم نے بھی کپتان کے حق میں کالم لکھے۔ خیال یہی تھا کہ موسم انگڑائی لے رہا ہے اور اللہ تعالےٰ نے ’’گَند‘‘ صاف کرنے کا فریضہ کپتان کے سپرد کر دیا ہے لیکن ’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا‘‘۔ کپتان نے یوٹرن لینے شروع کیے اور پھر اتنے یوٹرن لیے کہ ہم گِنتے گِنتے تھک بلکہ ’’ہَپھ‘‘ گئے۔ پھر کپتان کی کمند یہاں پہ ٹوٹی کہ ’’آسمان کے فرشتے کہاں سے لاؤں، اِنہی سے گزارہ کرنا ہوگا‘‘۔ سوال مگر یہ کہ جب قوم اِن ضمیرفروشوں کی شکلیں دیکھ دیکھ کر بیزار ہو چکی اور ملک وقوم کی بہتری کی اِن سے کوئی اُمید نہیں، تو پھر تحریکِ انصاف ہی کیوں؟۔ کپتان کی جماعت کا تو یہ عالم ہے کہ
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
بھان مَتی نے کُنبہ جوڑا
تحریکِ انصاف کے بانی ارکان تو مفقودالخبر، اب اِدھر اُدھر سے اکٹھا کیا گیا ’’کَچرا‘‘ باقی جس کے بھروسے پر کپتان 2018ء کے عام انتخابات میں اُتر رہے ہیں۔ کپتان ہمیں اپنی جماعت کے صرف دَس فیصد ارکان کے نام بتا دیں جو گھاٹ گھاٹ کا پانی نہ پیئے ہوں۔ اُن کا تو وزیرِاعلیٰ بھی تین جماعتیں بدل چکا اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ کہاں کہاں کی ’’سَیر‘‘ کرنے کے بعد تحریکِ انصاف میں ’’سَستا‘‘ رہے ہیں۔ جہانگیر ترین نامی ’’اے ٹی ایم‘‘ کو بھی سیاسی جماعتیں گھومنے کا شوق ہے اور کپتان کے ترجمان فوادچودھری کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ کہاں کہاں کا ’’سَیرسپاٹا‘‘ کرکے آئے ہیں۔کپتان کو اتنا تو علم ہونا چاہیے کہ جو نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کا نہیں ہوا، وہ اُن کا کیسے ہو سکتا ہے؟۔ اُنہوں نے نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے ضمیرفروشوں کا جو ’’ملغوبہ‘‘ اکٹھا کیا ہے، اُسے 2018ء کے عام انتخابات میں ایک دفعہ پھر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ قوم سیاسی شعور کی اُس منزل تک پہنچ چکی ہے جہاں کھوٹے کھرے کی پہچان ہو سکے۔ ہم بھی قوم سے یہی درخواست کرتے ہیں کہ وہ ووٹ خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کو دیں لیکن ضمیرفروشوں کو ہرگِز نہیں۔ قوم کو یہ ادراک بھی ہونا چاہیے کہ اُن کے ووٹ کی طاقت سے اِس دھرتی کی تقدیر بدل سکتی ہے اور سب اچھا کا موسم ہم پر سایہ فَگن ہو سکتا ہے۔ اگر اب کی بار بھی ہم ذات برادریوں اور وڈیروں لُٹیروں کے چکر سے نہ نکل سکے تو پھر پتہ نہیں گلشن کے مہکنے کا اور کتنا انتظار کرنا ہوگا۔