قدرتی خزانے، انسانی غفلت, گلگت بلتستان اور چترال کی کہانی … تحریر: اقبال عیسیٰ خان

پہاڑوں کے دامن میں بکھری جھونپڑیوں میں زندگی کی رمق تو ہے، مگر امید کی کرنیں مدھم ہو چکی ہیں۔ گلگت بلتستان اور چترال کے باسی ان معدودے چند اقوام میں شامل ہیں جن کے قدم مٹی پر ہیں مگر قسمت کے خزانے زمین کے سینے میں دفن ہیں۔
پہاڑوں، دریاؤں اور جنگلات کی گود میں نسل در نسل محنت و ریاضت سے جینے والے لوگ دراصل ایسے خزانوں کے امین ہیں جن کی قیمت کا اندازہ شاید خود انہیں بھی نہیں۔
ان بلند و بالا خطوں کی زمینوں میں سونا، چاندی، قیمتی و نیم قیمتی پتھر، صنعتی معدنیات اور قدرتی وسائل کی فراوانی ہے۔ مگر افسوس، یہ دولت اُن ہی کے لیے خواب بن چکی ہے جن کے ہاتھوں نے ان وادیوں کی مٹی میں پسینہ ملایا۔
ارضیاتی ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان کی سخت چٹانوں میں سونے کی مقدار 0.10 سے 24 پارٹس پر ملین (PPM) کے درمیان ہے، جبکہ عالمی معیارات کے لحاظ سے صرف 5 PPM سونا بھی تجارتی طور پر منافع بخش سمجھا جاتا ہے۔ تازہ تحقیقی رپورٹس بتاتی ہیں کہ 186 سے زائد سونے کے ذخائر اب تک شناخت کیے جا چکے ہیں، جبکہ جواہرات (Gemstones) کی سالانہ قدر کا تخمینہ تقریباً پانچ سو ملین روپے لگایا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار صاف ظاہر کرتے ہیں کہ کمی دولت کی نہیں، ادراک، منصوبہ بندی اور شفاف حکمرانی کی ہے۔
چترال کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔ تازہ ارضیاتی مطالعات کے مطابق وہاں اینٹیمونی (Stibnite) کے تقریباً 0.6 ملین ٹن اور لوہے کے خام مال کے 6.5 ملین ٹن ذخائر دریافت ہو چکے ہیں۔ مگر سوال وہی ہے: ان خزانوں سے مقامی لوگوں کے حصے میں کیا آیا؟
جواب تلخ ہے, لوئر چترال کے گاؤں ڈمیل کے باشندوں کے مطابق ایک کان کنی کمپنی نے چار ارب روپے سے زائد مالیت کے معدنیات نکالے، مگر مقامی لوگوں کو روئیلٹی تک نہ دی گئی۔
یہ صورتحال صرف ناانصافی کی نہیں بلکہ ترقیاتی وژن کی ناکامی کی عکاس ہے۔ گلگت بلتستان اور چترال کے عوام آج بھی مٹی، جنگلات، چراگاہوں اور پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ چترال میں صرف تین فیصد زمین قابلِ کاشت ہے۔ جب زراعت محدود ہو تو معدنی وسائل ہی معیشت کا دوسرا ستون بن سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہم نے ان پہاڑوں کو سرمایہ نہیں، صرف نظارے سمجھ رکھا ہے۔
اب وقت کا تقاضا ہے کہ ان دفن خزانوں کو عوامی فلاح اور علاقائی خودمختاری میں بدلا جائے۔ اس کے لیے تین بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں:
1. عوام میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ پہاڑوں کے نیچے چھپے یہ پتھر نہیں، دولت کے ذخائر ہیں۔
2. مقامی نوجوانوں کو تربیت، تحقیق اور مارکیٹنگ کے جدید علوم سے روشناس کرایا جائے۔
3. ایک شفاف ادارہ جاتی نظام قائم کیا جائے جو روئیلٹی، شراکت داری اور ماحولیاتی توازن کی ضمانت دے۔
فی الحال فیصلہ سازی کے مراکز مقامی نہیں بلکہ بیرونی ہاتھوں میں ہیں، اور یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
دنیا بھر میں سونا، تانبہ، نکل، کوبالٹ اور قیمتی جواہرات کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں گلگت بلتستان اور چترال نہ صرف جغرافیائی بلکہ معاشی و تزویراتی حیثیت کے لحاظ سے بھی نہایت اہم مقام رکھتے ہیں۔ مگر اگر ہم نے اب بھی صرف خام مال بیچنے پر اکتفا کیا اور ویلیو ایڈیشن (Value Addition) کی سمت قدم نہ بڑھایا تو آنے والی نسلوں کے ہاتھ خالی رہیں گے۔
وقت آ گیا ہے کہ یہاں کے نوجوان جواہرات کی کٹنگ، پالشنگ اور پروسیسنگ جیسے جدید ہنر سیکھیں تاکہ یہ خطے صرف خام مال فراہم کرنے والے نہیں، بلکہ تیار مصنوعات کے برآمد کنندہ بن سکیں۔ یہی حقیقی ترقی اور خودکفالت کی راہ ہے۔
یہ پہاڑ بظاہر خاموش ہیں مگر ان کے سینوں میں بولتے خزانے دفن ہیں۔ آج ان پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے جھونپڑیوں کے مکین شاید محرومی کا شکار ہوں، مگر درحقیقت وہ ان خزانوں کے اصل وارث اور محافظ ہیں۔
اگر ہم نے ان وسائل کو دانش، شفافیت اور اشتراکِ عمل کے ساتھ بروئے کار لایا تو آنے والی نسلیں صرف ان وادیوں کی خوبصورتی نہیں بلکہ ایک خودمختار، مضبوط اور باوقار معیشت کی وارث ہوں گی۔
کالم نگار اقبال عیسیٰ خان, بزنس کنسلٹنٹ اور اسٹریٹیجک ایڈوائزر ہیں، جنہوں نے Hilal Foods Pvt Ltd، NovelOPS Pvt Ltd، SATs، Unilever Pakistan Limited، DNG سمیت متعدد قومی و بین الاقوامی کمپنیوں میں کلیدی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ وہ “Develop N Grow International” اور “Toursity” کے بانی ہیں، اور گلگت بلتستان سمیت قومی سطح پر مختلف سماجی و فلاحی تنظیموں کی قیادت کر رہے ہیں۔ آپ اعزازی طور پر “شناکی ملٹی پرپز کوآپریٹو سوسائٹی” کے صدر اور “ہنزہ گلگت سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن” کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں



