شعبہ نرسنگ ،خدمت خلق کی عظیم ترین مثال ۔۔۔۔تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
نرسنگ وہ شعبہ ہے جو کسی بھی مریض کے زخموں پر مرہم رکھنے اور اس کی صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے انگنت مسائل کا شکار ہونے کی وجہ سے یہ شعبہ ابھی تک اپنے حقیقی مقام سے بہت دور نظر آتا ہے ۔ ہرسال بارہ مئی کے دن نرسوں کا عالمی دن منانے کا مقصد ایک جانب جہاں نرسوں کی لائق تحسین خدمات کا اعتراف ہے تو دوسری جانب اس شعبہ سے وابستہ خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے تدراک کے لئے کوششیں اور کاوشیں کرنا ہے،اور جنگ عظیم میں خدمات سرانجام دینے والی معروف نرس فلورنس نائٹ انگیل کی ناقابل فراموش خدمات کو سراہنا ہے۔ درحقیقت نرس ایک پیشہ نہیں بلکہ جذبے کا نام ہے ، بلکہ درحقیقت شعبہ نرس ہی حقیقی جذبہ خدمت خلق کی عظیم ترین مثال ہے۔ شدت درد و تکلیف کے عالم میں انسان سب سے زیادہ کسی ہمدرد کا ہی متلاشی ہوتا ہے ، اور جب کوئی اس کے درد کی دوا کرے تو اس کڑے وقت میں اس درد کے مارے کا اس سے بڑھ کر محسن کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ یہاں واضع رہے کہ پاکستان میں نرسنگ کے شعبہ کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی تھی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2 کروڑ سے زائد نرسیں خدمت انسانی کے جذبے کے تحت دنیا کے مختلف ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 69 لاکھ 41 ہزار 698 نرسوں کے ساتھ یورپ سرفہرست جبکہ 40 لاکھ 95 ہزار 757 کے ساتھ براعظم امریکا کا خطہ دوسرے، 34 لاکھ 66 ہزار 342 کے ساتھ مغربی بحرالکاہل تیسرے، 19 لاکھ 55 ہزار 190 کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیا چوتھے، 7 لاکھ 92 ہزار 853 کے ساتھ افریقہ پانچویں نمبر پر ہے۔عالمی ادارہ برائے صحت کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ نرسیں امریکہ میں ہیں جہاں 26لاکھ 69ہزار 603 نرسیں مختلف ہسپتالوں میں موجود ہیں اکنامک سروے آف پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں 62 ہزار 651 نرسیں ہیں۔تاہم نرسنگ کا شعبہ تاحال متعدد مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق ملک میں نرسنگ کی بنیادی تربیت کے لیے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 162 ادارے قائم ہیں۔ ان میں سے پنجاب میں 72، سندھ میں 59، بلوچستان میں 12 جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نرسنگ کے 19 ادارے قائم ہیں۔ ان اداروں سے سالانہ 1800 سے 2000 رجسٹرڈ خواتین نرسز، 1200 مڈ وائف نرسیں اور تقریباً 300 لیڈی ہیلتھ وزٹر میدان عمل میں آتی ہیں۔ جبکہ نرسنگ کے شعبے میں ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام پیش کرنے والے اداروں کی تعداد صرف پانچ ہے۔ دوسری طرف صورت حال کچھ یوں ہے کہ ہسپتالوں میں نرسوں کی تعداد ضرورت سے کئی گنا کم ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 10 برسوں کے دوران نرسوں کی تعداد میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے مگر اس کے باوجود 10 ہزار آبادی کے لئے صرف 5 نرسیں موجود ہیں۔ جبکہ ایک سروے کے مطابق ملک کے صرف اچھے ہسپتالوں میں آ ٹھ بستروں پر مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے صرف ایک نرس موجود ہے جبکہ جب کہ پاکستان بھر میں ایسے ہسپتال بھی موجود ہیں جہاں ایک وقت میں اسٹاف نرس یا چارج نرس کو بیک وقت پچاس سے زائد مریضوں کی دیکھ بھال کر نا پڑتی ہے ۔ نرسوں کے لیے ڈاکٹروں کی طرح ڈیوٹی کی تین شفٹیں رکھی جاتی ہیں جن کا دورانیہ کم و بیش دس سے سولہ گھنٹے تک کا ہوتا ہے اور حادثاتی صورت حال کے پیش نظر نرسوں کو اکثر و بیشتر اووَر ٹائم بھی لگانا پڑتا ہے مگر ان کو اس کی اضافی اجرت نہیں دی جاتی ۔ نرسنگ ایسوسی ایشن کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں نرسنگ اسٹاف کو کام تو زیادہ کرنا پڑتا ہے لیکن انہیں دی جانے والی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک نرس کو اگر ایک وقت میں پچاس مریض اٹینڈ کرنے ہوں تو ایک انسان ہونے کے ناطے یہ اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا اس پر بھی مشکل یہ ہے کہ جن ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے لئے تو وارڈ میں دو گھنٹے گزارنا شرط ہوں وہاں نرسز صبح اور شام کی شفٹ میں چھ گھنٹے اور رات کی شفٹ میں بارہ گھنٹے تک کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسے میں ناصرف مریضوں کو مناسب توجہ نہیں دی جا سکتی جو کہ مریضوں کے لواحقین کے غصے اور بعض اوقات ان کی جانب سے جسمانی تشدد تک کا سبب بن جاتا ہے ، سردی گرمی، بارش آندھی اور رات دن کی پروا کئے بغیر مریضوں کی خدمت گزاری کے فرائض سرانجام دینے والی نرسوں کو شعبہ صحت میں ریڑھ کی ہڈی تو قرار دیا جاتا ہے مگر وہ انتہائی مشکل حالات میں کم تنخواہ، کم سہولتوں کے باوجود پیشہ وارانہی سرگرمیاں سرانجام دینے پر مجبور ہیں، ملک میں کام کرنے والی بیشتر نرسیں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتیں ہیں۔ اسی وجہ سے ا ضافی کام کے بوجھ، قلیل سہولیات ، اور دیگر مسائل کے باوجود سرکاری ہسپتالوں میں ذیادہ تر نرسز صرف تجربہ حاصل کرنے کے لئے ملازمت اختیار کرتی ہیں اور جونہی انہیں کسی بہتر جگہ ملازمت دستیاب ہوتی ہے وہ فوراً سرکاری ملازمت چھوڑ کر نجی اداروں یا بیرون ملک کا رخ کرلیتی ہیں۔ حکومت کو نرسوں کے مسائل ترجیحی طور پر حل کرنا چاہئے تاکہ یہ اطمنان بخش زندگی گزار کر دکھی انسانیت اور درد و کرب میں مبتلا مریضوں کی بہتر طور پر خدمت اور نگہداشت کرسکیں۔