ناران میں ہمارے انتظامی امور کے ذمہ داروں نے جب اخراجات کی جانچ پڑتال کی۔ تو بجٹ میں ہمارے پاس ایک اور سیاحتی مقام کی وزٹ کی گنجائش موجود تھی ۔ اس پر صدر پریس کلب ظہیر الدین نے تجویز دی ، کہ ٹور میں مظفر آباد کو بھی شامل کیا جائے ۔ سب نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی ۔ یوں ناران سے صبح سویرے مظفر آباد جانے کا سفر شروع ہوا ۔ ہم واپس کاغان ناران کے راستے بالا کوٹ پہنچے ۔ اور بالاکوٹ سے گھڑی حبیب اللہ کے راستے مظفر آباد کی طرف روانہ ہو گئے ۔ یہ پکی سڑک انتہائی طور پر تنگ اور خستہ حال تھی ۔ اور اسے دیکھ کر ایک مایوسی اور محرومی سی دل میں پیدا ہو رہی تھی ۔ کہ ہم کشمیر کو اپنی شاہ رگ قرار دیتے ہیں ۔ لیکن کشمیر تک پہنچنے کے راستے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے ۔ سامنے سے اگر کوئی گاڑی آجاتی تو بہت مشکل سے کراس کر جاتی ۔ لیکن جب ہم کشمیر کی حدود میں داخل ہوئے ۔ تو خوشی ہوئی کہ وہاں کی سڑکیں کُشادہ پختہ اور صاف ستھری تھیں ۔ ہم آزاد جموں کشمیر کی آغوش میں آچکے تھے۔ ہر طرف نظاروں کے حسن کی تابانی تھی ۔ اور دل و دماغ فرحت محسوس کر رہے تھے ۔ تمام ساتھی کشمیر کے حسن پر تبصرہ کر رہے تھے ۔ جمال و حسن کی ان رعنائیوں پر تبصرے کے دوران ہی ہماری نظریں دور نیچے مظفر آباد کے شہر پر پڑ یں۔ یہ ایک روح پرور منظر تھا ۔ سانپ کی چال چلتی دریا ء نیلم اور اُس کی آغوش میں مظفر آباد شہر ایک عجیب نظارہ پیش کر رہا تھا ۔ ساتھیوں سے رہا نہ گیا ۔ گاڑی روکی ، نیچے اُترے اور سیلفیوں میں خود کومظفر آباد شہر کے مناظر کے ساتھ محفوظ کر لیا ۔ ہم تقریبا بیس منٹ مزید ڈرائیو کے بعد آزاد جموں کشمیر نیشنل پریس کلب مظفر آباد پہنچ گئے ۔ اُس وقت دن کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے ۔ اور شہر میں گرمی بھی کافی تھی ۔ نیشنل پریس کلب آزاد جموں کشمیر سپریم کورٹ کے بالکل سامنے واقع ہے ۔ جہاں سے پارلیمنٹ ہاؤس اور پریذیڈنسی کوئی زیادہ فاصلے پر نہیں ہیں ۔ ہم اپنے صحافی بھائیوں سے ملنے کا اشتیاق رکھتے تھے ۔ گاڑی پریس کلب کے احاطے میں کھڑی کی ۔ اپنی آمد سے متعلق بتایا تو ایک صاحب نے ہماری رہنمائی کی اور صدر پریس کلب کے آفس میں ہمیں لے گئے ۔ صدر پریس کلب موجود نہیں تھے اور ہماری ملاقات سجاد میر صاحب وائس پریذیڈنٹ سے ہو گئی ۔ یہ ایک ملنسار ، مہمان نواز اور خوش طبع شخصیت کا مالک تھا ۔ ہم نے جب تعارف کیا ۔ تو ایک مرتبہ پھر گلے ملے ۔ اور انتہائی خلوص اور محبت کا اظہار کیا ۔ یہاں سما ٹی وی کے رپورٹر امیر الدین مغل سے بھی ملاقات ہوئی ۔ جو دو مرتبہ چترال کا دورہ کر چکے تھے ۔ ہمارے لئے فوری طور پر چائے کا انتظام کیا گیا ۔ اس دوران چترال اور کشمیر کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ہوا ۔ پریس کلب میں پریس کانفرنس کی تیاری ہو رہی تھی ۔ اور کافی گہما گہمی اور زیادہ مصروفیت دیکھائی دے رہی تھی ۔ اس لئے چائے کے بعد ہم نے اجازت چاہی ۔ لیکن سجاد میر صاحب نے ایک مرتبہ پھر محبت کا اظہار کرکے لنچ پر مجبور کیا ۔ ہم نے بہتیرے کوشش کی کہ رخصت حاصل کریں ۔ لیکن ہماری ایک نہ چلی ۔ اور انہوں نے لنچ کی تیاری تک قریبی پارک کی وزٹ کا مشورہ دیا ۔ جو مظفر آباد کا مشہور پارک ہے ۔ ہم آزاد جموں کشمیر سپریم کورٹ کے بیچوں بیچ شارٹ راستے سے ہوتے ہوئے پریذیڈنسی کے قریب پارک پہنچ گئے ۔ جو کہ جلالہ پارک کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ واقعی ایک خوبصورت پارک تھا ۔ جس میں مالیوں نے اپنے فن کے جو ہر دیکھائے تھے ۔ تو باغ کے ڈیزائنر بھی داد و تحسین کے مستحق تھے ۔ ہماری طرح کئی سیاح مردو خواتین پارک کے مختلف حصوں میں اس کے نظاروں کا لطف اُٹھارہے تھے ۔ اور تصاویر بنا رہے تھے ۔ باغ کے حسین نظاروں نے ہمیں اتنا متاثر کیا تھا ۔ کہ یہاں سے واپس مڑنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا ۔ لیکن ہم وقت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ اس لئے مقررہ وقت پر پریس کلب واپس لوٹ آئے ۔ ہماری غیر حاضری کے دوران صدر پریس کلب ابرار حیدر بھی تشریف لا چکے تھے ۔ اور اُن کو ہماری آمد کے بارے میں بتا دیا گیا تھا ۔ اُنہوں نے بھی بہت محبت دی ۔اور چترال کے بارے میں بات چیت کی ۔ اس دوران لنچ بھی لگ چکی تھی ۔ یہ کشمیر کی روایتی ڈشز پر مشتمل ضیافت دی ۔ جس کے ہر ہر آئٹم سے خلوص کے ذائقے محسوس کئے جا سکتے تھے ۔ مقامی ساگ ، کڑی ، لسی ، مکئی کی روٹیاں ایسی ذائقہ دار کہ ہر نوالے پر مزہ آرہاتھا ۔ اور دل و دماغ مسلسل ماضی کو یاد کر رہے تھے ۔ جب یہی کھانے چترال میں پکائے جاتے تھے ۔ اور پیش کئے جاتے تھے ۔ آج پورا چترال ان روایتی کھانوں سے خالی ہو چکا ہے ۔ اور تمام لوگ پولٹری فارمز کی برائلر مُرغیوں پر ہی انحصار کرتے ہیں ۔ ہم ان روایتی کھانوں سے تواضع پر بہت خوش ہوئے ۔ اور دل سے اُن کے خلوص اور محبت کی تعریف کی ۔ کھانے کے دوران کچھ سیاسی باتیں بھی ہوئیں ۔ اور یہ جان کر حیران رہے ۔ کہ پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے کشمیر کے لوگ اچھی توقع نہیں رکھتے ۔ ابرار حیدر صاحب سے ایک سوال پر انہوں نے کہا ۔ کہ کشمیر یوں کو پیسوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ 15لاکھ کشمیری بیرون ملک مقیم ہیں ۔ جن کی آمدنی ہی کشمیر کی تعمیرو ترقی کیلئے کافی ہے ۔ کشمیریوں نے اپنی آمدنی سے علاقے کو ترقی دی ہے ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا ۔ کہ کشمیر کی آزادی کی جنگ ایک لا حاصل جنگ ہے ۔ اس لئے کشمیریوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینے کی ضرورت ہے ۔ لنچ کے بعد ہم نے اپنے صحافی دوستوں سے رخصت لی ۔ اور کوہالہ پُل کے راستے مری کیلئے روانہ گئے ۔ ہمیں مری کے ائریے میں داخل ہونے کے بعد اندازہ ہوا ۔ کہ سڑک کی خرابی کے باعث ہمارا یہ سفر بہت تکلیف دہ اور وقت طلب ہو سکتا ہے ۔ اور ایسا ہی ہوا ۔ ہم نہ ختم ہونے والی خراب سڑک کا انتخاب کیا تھا ، اور یہ آزاد کشمیر کی طرف سے مری کا راستہ تھا ۔ بالا خر اس سڑک سے ہماری جان چھوٹی اور مری کی شہری حدود میں داخل ہو گئے ۔ لیکن ہم مری کو مزید وقت نہیں دے سکتے تھے ۔ اس لئے راولپنڈی کی راہ لی ۔ اور شام 7بجے پنڈی پہنچ گئے ۔ ہم بہت زیادہ تھک چکے تھے ، اس لئے کھانے کے بعد سونے کیلئے ہوٹل کے کمروں تک محدود ہو گئے ۔ راولپنڈی ہمارے ٹور کا آخری مقام تھا ۔ جہاں قیام کے بعد اگلی صبح ہم نے گھروں کی راہ لی ۔
303