356

دادبیداد ۔۔۔۔ایک نظم اور ہماراحال ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی 

منی بجٹ کا شور ہے مہنگائی کا زور ہے گیس کی لو ڈ شیدنگ اور بجلی کا بریک ڈاون ،روز ایسے مسائل سے پالا پڑ تا ہے پھر بھی ہم بیدار نہیں ہو تے ہماری آنکھیں نہیں کُھلتیں یہ راز کیا ہے اس میں کونسی حکمت ہے اوراس کی وجہ کیا ہے ؟ آج مجھے جون ایلیا کی نظم ’’ولایت خائباں ‘‘ یا د آرہی ہے ولایت خائباں کے نا م سے جون ایلیا نے ایک بستی ، ایک ریا ست ، ایک مملکت کا خا کہ کھینچا ہے یہ ایسی مملکت ہے جس کے تمام شہری ہر وقت نیند کی حا لت میں ہو تے ہیں یہاں تک اس مملکت کے باسی ایک دوسرے سے پیار کریں تو ’’ آئی لو یو ‘‘ (I Love you) کہنے کے لئے بھی تین زور دار خراٹے لیتے ہیں ان خراٹوں سے نیند ہی نیند میں دوسرا فریق سمجھہ جا تا ہے کہ میرے ساتھ محبت کا اظہار ہو رہا ہے وہ بھی خراٹوں میں جواب دیتا ہے شاعر نے جس طرح نظم کا عنوان خوب صورت رکھا ہے اسی طرح نظم میں جگہوں اور کر داروں کے نا م بھی بے نظیر اور بے مثل ہیں دو مسافر یا سر ابن حُندُب اور بُر یر ابنِ سُلا مہ نئی مملکت میں داخل ہو تے ہی دیکھتے ہیں کہ مملکت میں ہر شہری نیند کی حا لت میں ہے دکا ن سے دفتر تک ، کھیت سے لیکر گھر تک ہر جگہ لو گ خواب کی حالت میں ہیں دونوں حیراں ہو تے ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے وہ ایک جگہ ٹھہرنے کا قصد کر تے ہیں اس جگہ کا نام ’’ سرائے سین ‘‘ ہے یہاں مسافر وں کی ملا قات اس مملکت میں واحد بیدار اور جیتے جاگتے شخص سے ہو تی ہے دونوں اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس مملکت میں سارے عوام کیو ں سوئے ہوئے ہیں ؟ بیدار شخص کا نام سرمد ارکانی ہے سرمد ار کانی کہتے ہیں کہ یہ اُن کا کمال نہیں باد شاہوں کا کمال ہے بادشاہوں نے اس مملکت کی ہوا میں خواب آور مادہ شامل کیا ہے پا نی میں خواب آور ما دہ گھول دیا ہے جو بھی یہاں کی ہوا میں سانس لیتا ہے اور یہاں کا پا نی پیتا ہے وہ نیند کی آغوش میں چلا جا تا ہے بادشاہوں نے سو چا لو گوں کی بیداری اور آگا ہی میں ہماری خیر نہیں ہمارا مفاد اس میں ہے کہ لو گ سو ئیے رہیں خوابِ غفلت میں مگن رہیں اس لیے یہ لو گ ازل سے سوئے ہوئے ہیں قیا مت کا زلزلہ انہیں جگا دے تو جگا دے ور نہ یہاں کسی جاگتے بندے سے ملا قات کا کوئی امکان نہیں آج میں سوچتا ہوں جو ں ایلیا نے 1960ء میں یہ نظم لکھی تو ان کی آنکھو ں کے سامنے ’’ ولایت خائباں‘‘ کے نا م سے وطن عزیز پاکستان کا نقشہ ہو گا 1960ء میں باد شاہ وقت نے پاکستانیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا تھا جیسا سلوک و لایت خائباں کے باد شاہ ہوں نے اپنی رعا یا کے ساتھ کیا یعنی پو ری قوم کو سلانے کا تیر بہدف نُسخہ اُن کے پاس بھی تھا اِن کے پاس بھی تھا جو ن ایلیا کی چشم بصیرت نے دیکھا ہو گا کہ پا کستان کے عوام کو یہ ’’ غنود گی ‘‘ ہر دور میں حا صل رہے گی آج جوں ایلیا زندہ ہوتے اوراُن سے کہا جا تا کہ آج کے حا لات پر کوئی تازہ نظم ہو جا ئے تو وہ یہی نظم نذر محفل کرتے اور اپنے دبنگ اسلوب میں کہتے ’’ جو تمہارے اورہمارے حا لات ہیں ان حا لات میںیہی تازہ نظم ہے بلکہ سدا بہار نظم ہے آج خدا نہ کرے آپ کا کوئی عزیز بیمار ہو ،آپ کے کسی عزیز نے ٹیسٹ یا انٹر ویودیا ہو، آپ کے کسی عزیز کو کسی سر کاری دفتر یا عدالت میں کوئی کام ہو آپ کو محسوس ہو گا کہ سب لو گ سوئے ہوئے ہیں سب کو خوابِ غفلت نے اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے دو کمروں کے گھر میں بجلی کا بل 25ہزار روپے آتا ہے تو خواب ہی میں 25ہزار روپے ادا کئے جا تے ہیں گیس کا 10گنا زیا دہ بل آتاہے تو خواب ہی میں اد اکیا جا تا ہے بِل بھیجنے وا لا بھی خواب کی حا لت میں ہے بل دینے وا لا بھی خواب سے بیدار ہونے کا نام نہیں لیتا عدالت میں 150ویں پیشی کے لئے تاریخ دینے والا جج بھی نیند کے مزے لے رہا ہے 150ویں پیشی بھگتنے کے بعد چُب چاپ گھر جانے والا سائل بھی خواب سے بیدارنہیں ہوا جج بھی مزے سے خراٹے لے رہا ہے سائل بھی مزے لے لے کر خراٹوں پہ خراٹے لے رہا ہے منصف خراٹوں میں انصاف کر تا ہے سائل خراٹوں میں انصاف کی دہائی دے رہا ہے وزیر خزانہ خراٹوں میں قوم کوآنے والی خوش حا لی اور بے تحا شا ترقی کی خوش خبری سُنا رہا ہے عوام خراٹوں میں تا لیاں بجا کر اُن کے اعلا نا ت کا خیر مقدم کرتے ہیں ہم سب ولایت خائباں کے دلکش مقام ’’ سرائے سین ‘‘ میں بیٹھے ہیں چاروں طرف سے خراٹوں کی آوازیں آرہی ہیں میرا خیال ہے جون ایلیا نے یہ نظم ہمارے لئے اور آج کے دور کے لئے لکھی ہے سچ کہتے ہیں شاعر تلمیذ الرحمن ہو تا ہے اُن کا وجدان جو گواہی دیتا ہے وہ سچی گوا ہی ہو تی ہے یہاں جو بھی نیا نیا آتاہے وہ بے پنا ہ شوق اور جذبہ لیکر آتا ہے پھر رفتہ رفتہ اُس کا شوق دھیما پڑ جا تا ہے جذبے پر مُر دنی جیسی کیفیت چھا جا تی ہے آخر کاروہ بھی پہلے سے بر اجمان لو گوں کی طرح نیند کی آغوش میں چلا جا تا ہے ولایت خائباں میں آنے والے دو اجنبی بُر یر ابن سلامہ اور یا سرا ن حُندُب ابھی سرائے سین میں سر مدار کافی کے ساتھ خوابیدہ قوم کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ یکا یک سر مد ارکانی پر نیند کا غلبہ ہو ا، بریر ابن سلامہ نے یا سر ابن حُندُب کی طرف دیکھا اُس پر بھی غنو گی کا عا لم طاری ہو اتھا تھوڑی دیر بعد بریر ابن سلامہ بھی نیند کی آغوش میں چلے گئے نظم کا آخری بند اُن کے خراٹوں کی آوازیں لئے ہوئے ہے ، خراخر ہا ، خرا خر ہا ،خرا خر ہا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں