334

معاشرتی مسائل اورمردان ۔۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی طرح کی غلطی کرنے سے بازنہیں آتے ،قانون توڑناہم نے اپنامشغلہ اور وطیرہ بنارکھاہے ،چاہے بنک میں بنی قطارہو یاپٹرول پمپ پر لگی لائن یاپھرٹریفک جام ہرجگہ لائن توڑنااوراپنی باری کاانتظارکئے بغیر کسی بھی طرح بس نکلناہم اپناحق سمجھتے ہیں ،تنگ اور پرہجوم بازاروں میں سڑک کے کنارے بے ترتیب گاڑیاں کھڑی کرنااورریڑھیاں لگاناتوگویاہماری فطرت بن گئی ہے۔اس احساس سے عاری کہ آنے والی گاڑی کابریک کام چھوڑسکتاہے یاڈرائیورکی توجہ بھی ہٹ سکتی ہے اورکوئی ناخوشگوارواقعہ رونماء ہوسکتاہے ہم پیدل چلتے ہوئے محض ہاتھ کااشارہ کرکے تیزرفتار چلتی گاڑیوں کوروک کران کے سامنے سے گزرجاتے ہیں،اس بات کاادراک کئے بغیرکہ ٹریفک جام ہوگی اور دیگرلوگوں کوتکلیف پہنچی گی مریض کوہسپتال پہنچانے یامیت کوگھرلے جانے کے لئے ایمبولینس جارہی ہوگی توکہیں حاملہ خاتون کوہسپتال کے ایمرجنسی پہنچاناہوگاہمیں فکرہی کوئی نہیں ہوتی سواریاں اتارنے اوربٹھانے کے لئے سڑک کے درمیان میں گاڑیا ں کھڑی کردیتے ہیں۔ گردو غبار اورگندگی کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی کچی سڑک پر گاڑی دوڑاتے ہوئے یہ احساس تک نہیں کرتے کہ اٹھتاگردوغباراور دھول سڑک کنارے بیٹھے اور راہ چلتے لوگوں کے لئے کتنانقصان دہ ثابت ہوسکتاہے ۔پیدل یاچلتی گاڑیوں میں پڑھے لکھے ، کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ خواتین و حضرات آتے جاتے ہوئے فروٹ،ڈرائی فروٹ اور دیگرچیزیں کھاکرچھلکے اور لفافے کسی بھی جگہ پھینک کرگزرجاتے ہیں۔لگتاہے ہمیں بدبوسونگھنے کی بھی لت پڑگئی ہے جبھی تواینٹ اورپتھرسمیت ہرچیزنکاسی آب کے لئے بنے نالوں میں پھینک کرپانی کے نکلنے کاراستہ بند کردیتے ہیں گندے نالیوں میں کھڑے پانی سے نہ صرف بدبوپھیلتی ہے بلکہ اس سے انتہائی موذی جراثیم بھی جنم لیتے ہیں۔گلی کوچوں اور بازاروں میں پالتوجانور دندنا تے پھررہے ہوتے ہیں بلکہ رابطہ سڑکوں اورمیں شاہراہوں پرسے کتے،گدھے،گائے،بھینس بکری اور دیگراچھلتے کودتے اور دوڑتے گزرتے بے لگام جانوروں کودیکھ کرجنگل کے سماں کاگماں ہوتاہے اورلگ یہ رہاہوتا ہے جیسے یہ شاہراہیں بس انہی جانوروں کے لئے بنی ہوئی ہیں۔مین سڑک پر کوئی دندناپھرتاپالتوجانورتیزرفتاگاڑی کی زد میں آجائے تو جانورکوکوئی قصوروارٹھراتاہے نہ اس کے مالک کو۔ گاڑی کوبھلے نقصان پہنچاہولوگ یہ کہہ کرڈرائیورکوقصورواراورذمہ دار ٹھراتے ہیں کہ وہ تو جانور تھامگرتم توانسان تھے۔سرکارلاکھوں روپے کی لاگت سے طویل عرصے میں جوسڑک تعمیر کرتی ہے اسے ایک ماہ بعد بجلی کاکھمبہ لگانے ،ٹیل فون کاکیبل ،سوئی گیس کی لائن اور پانی کاپائپ گزارنے کے لئے توڑاجاتاہے جبکہ سڑک بننے کے دوسرے دن اس پرپہاڑکی مانند بڑے سپیڈبریکرز بنے ہوئے نظرآتے ہیں وہ بھی غیرقانونی جن پر گاڑی گزارتے ہوئے ایسامحسوس ہوتاہے جیسے گاڑی پہاڑپر سے گزررہی ہو۔ہسپتالوں کے سامنے گندگی کے ڈھیرپڑے رہتے ہیں ساتھ میں بھیڑبکریوں اور گائے بھینسوں کوپالاجاتا ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔جلسوں جلوسوں اور عوامی اجتماعات میں تو لاؤڈسپیکر کے استعمال پر پابندی ہوتی ہے مگرمساجد اور مدارس میں لاؤڈسپیکرکاآزادانہ استعمال کیاجاتاہے حالانکہ حقیقت نظری سے دیکھاجائے تووطن عزیزمیں مذہبی منافرت پھیلانے میں لاؤڈسپیکرکا کلیدی کردارہوتاہے کیونکہ جس طرح ہر گوالادعویٰ کرتاہے کہ اس کی بھینس کادودھ اچھا ہے اسی طرح لوگوں کی توجہ مخصوص مسلک اور مکتب فکرتک مبذول کرانے کے لئے مساجد اور مدارس میں لاؤڈسپیکر کاسہارہ لیاجاتاہے۔ مگراس تمام صورتحال میں قانون نافذ کرنے والوں کاکردارانتہائی ڈھیلاڈھالادکھائی دیتاہے اسی لئے توہرکوئی اپنی مرضی سے قانون بناتااور سرکاربنایاقانون بلاخوف وخطر پاؤں تلے روندتاچلاجاتاہے اور یہ سب کچھ معمول کاعمل بنانظرآتا ہے ۔اگرچہ ڈاکٹرز کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ ان کی سماجی زندگی بڑی محدود ہوتی ہے۔ فرائض کی نوعیت کی روَسے ان کی تمام تر توجہ مصروفیات اورسرگرمیاں محض ہسپتال اورکلینک میں مریضوں کامعائنہ، ان کی طبی دیکھ بھال اور گھرکی ذمہ داریاں نبھانے تک محدودہوتی ہیںیہی وجہ ہے کہ بقیہ معاشرتی زندگی سے ان کاکوئی سروکاراور لینا دینا نہیں ہوتاکیونکہ دیگر معاملات میں جھانکنے کاانہیں وقت ہی نہیں ملتامگرشائد تمام ڈاکٹرز کے بارے میں ایسی رائے رکھنادرست نہیں۔گزشتہ دنوں والدہ کے طبی معائنہ کی غرض سے مردان میں ایک نبض شناس ماہر معالج کے پاس جانے کااتفاق ہوا۔موصوف ایک اہم قومی ادارے میں ذمہ دارعہدے پر فائز رہے ہیں اوراب شہرِمردان میں میڈیکل پریکٹس میں مصروف عمل ہیں۔دھیمے لہجے، شائستہ اندازگفتگواورانتہائی نفیس شخصیت کے حامل مذکورہ ڈاکٹر کے دریافت کرنے پر جب میں نے خودکومیڈیاکا نمائندہ ظاہرکیا توموصوف نے دو تین مسائل کی جانب میری توجہ مبذول کرانے کی کوشش اور انہیں میڈیاکے توسط سے حکومت اور متعلقہ اداروں کے روبرولانے کی تاکیدبھی کی۔ان کے مطابق مردان میں شمسی روڈایک اہم شاہراہ ہے جس پر ایک بڑاہسپتال واقع ہے اس کے آس پاس بھینسوں کوپالاجاتاہے اور ان کے چارے کابھی کاروباکیاجاتاہے ،صبح شام جب بھینسوں کاریوڑھ سڑک پر سے گزرتاہے توکافی دیر تک گاڑیوں کی آمدورفت رک جاتی ہے ایسے میں ہسپتال جانے والی ایمبولینس کوبھی نکلنے کاراستہ نہیں ملتا ۔دوسرایہ کہ سڑکوں پر جگہ جگہ لوہے کی اینٹیں لگاکر سپیڈبریکرزبنائے گئے ہیں جس سے گاڑیوں کوبھی نقصان پہنچتاہے اورگاڑیوں میں سفر کرنے والے لوگوں کوبھی ۔لب کشائی کرتے ہوئے ڈاکٹر موصوف نے تیسرے اہم نکتے کی نشاندہی کچھ یوں کی کہ آذان کے علاوہ لاؤڈ اسپیکرکے استعمال پر پابندی ہونی چاہئے۔مذکورہ معالج کی رائے سے کوئی اختلاف نہیں مردان جیسے اہم شہرمیں اتنے اہم شاہراہ پراگر قانون نافذکرنے والوں کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہوتاہے تویہ قابل مذمت ہے مگرسچ تویہ ہے کہ یہ محض شہرمردان کاقصہ نہیں ہے یہ توہرشہر،ہرمحلے اور ہر شاہراہ کی کہانی ہے ۔بس اگر ضرورت ہے توقانون کی حرکت میں آنے کی اور قانون پامال کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں