310

موت ننھی بسمہ کی یا انسانیت کی؟۔۔۔۔۔۔سیّد ظفر علی شاہ ساغرؔ

اگردریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتابھی بھوک اور پیاس کی وجہ سے ہلاک ہوگیاتواس کی پوچھ گچھ مجھ سے کی جائے گی یہ کہناتھاحاکم وقت خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کامگرذکرہو آج کے حکمرانوں کاتوان کاطرزعمل بادشاہوں جیساہے۔کہتے ہیں ایک دفعہ کسی ملک میں شدید قحط سالی آئی تھی جس سے اَناج ناپید ہوگیاتھاایسے میں جب قحط کے شکاربھوکے شہری مجبورہوکر بادشاہ کے محل کے سامنے جمع ہوئے توبادشاہ کی بیٹی نے باپ سے لوگوں کی بدحالی کی وجہ دریافت کی ۔بادشاہ نے بیٹی کوبتایاکہ ملک شدید قحط سالی کی زد میں ہے جس کے باعث لوگوں کوکھانے کے لئے روٹی نہیں مل رہی ۔بادشاہ کایہ جواب سن کر بیٹی بے ساختہ بولی اگرروٹی نہیں مل رہی ہے تویہ لوگ بسکٹ کیوں نہیں کھاتے ۔ اگرچہ یہ فرضی کہانی بھی ہوسکتی ہے مگرزمینی حقائق کے تناظرمیں دیکھاجائے تو گماں ہوتاہے کہ ہمارے حکمران بھی روائتی بادشاہ بنے بیٹھے ہیں۔ عوام جئے یامرے مگران کے شاہانہ طرزعمل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔اگرچہ ایسے دلخراش،اندوہناک ،قابل مذمت اور ناقابل برداشت واقعات معمول کا حصہ ہے جو حکمرانوں کی غفلت ولاپرواہی اور ناقص پالیسیوں کے باعث پیش آتے ہیں مگر23دسمبرکوکراچی میں لیاری کی ننھی بسمہ جس طرح بے بسی کے عالم میں اپنے والد کی گود میں زندگی کی بازی ہارگئی تھی اس کی مذمت کے لئے الفاظ نہیں مل رہے۔اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہوگی۔میڈیاکے ذریعے موصولہ اطلاعات کے مطابق کراچی میں لیاری کے رہائشی فیصل بلوچ کی دس ماہ کی بچی بسمہ جو کہ بڑی منتوں کے بعد شادی کے دس سال بعد پیداہوئی تھی اور والدین کی اکلوتی اولاد تھی اچانک بیمارہوگئی جسے والدسول ہسپتال لے گیامگرعین اسی وقت پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری اوروزیراعلیٰ سندھ سول ہسپتال میں ٹراماسنٹرکے افتتاح کے آئے ہوئے تھے ان کی آمد کے پیش نظرہسپتال میں وی وی آئی پی پروٹوکول جبکہ اطراف میں غیرمعمولی سیکورٹی کے باعث باوجودبڑی منت سماجت کے فیصل بلوچ کو ہسپتال میں جانے نہیں دیاگیاوہ بچی کو گودمیں اٹھائے تین گھنٹوں تک مسیحاکی تلاش میں جس طرح دوڑدوڑکے تگ ودوکررہاتھا میڈیاکے کیمرے ان لمحات کومحفوظ کرکے قوم کو دکھارہے تھے جسے دیکھ کر لگتاہے کہ ننھی بسمہ کے والد کے لئے لیاری سے سول ہسپتال تک کاسفر پل صراط بن گیااس کی دوڑکام آئی نہ منت سماجت ۔یوں معصوم بسمہ نے زندگی کی بازی ہارکر والد کی گودمیں جان دے دی ۔یہ افسوسناک منظر دیکھ کر مجھے دو تین سال قبل میڈیاکارپورٹ کردہ وہ واقعہ یاد آیاجب برطانیہ کے وزیراعظم پروٹول کے ساتھ ایک ہسپتال گیاتو وہاں وارڈمیں موجودمیڈیکل آفیسرنے وزیراعظم کے ہسپتال آنے اورمریضوں کے وارڈمیں داخل ہونے کا اس قدر برامنایاکہ وزیراعظم کوایک منٹ کے لئے بھی وہاں رکنے کی اجازت نہیں دی اور اسے بے عزت کرکے وہاں سے نکال دیاوزیراعظم وہاں سے گیاتواسے اناکا مسئلہ نہیں بنایابلکہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ہسپتال انتظامیہ سمیت پوری قوم سے معافی مانگی۔ مگرذکرہومذکورہ واقعہ کے تناظر میں ہمارے حکمرانوں کاتو یہاں الٹاگنگابہتی ہے بجائے ندامت کے،اظہارافسوس اور معافی مانگنے کے ہمارے حکمراں پوری ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مؤقف کودرست ثابت کرنے کئے جوازڈھونڈتے ہیں اور صفائی پیش کرتے رہتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے سینئرراہنمااور صوبائی وزیر نثارکھوڑو کاطرزعمل اس کی واضح مثال ہے ۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد میڈیاسے باتیں کرتے ہوئے ان کاکہنایہ تھاکہ ہمارے لئے توسب سے زیادہ عزیزہمارے بلاول بھٹوہیں۔بلاول بھٹوکوسب سے زیادہ عزیزسمجھنے والے نثار کھوڑواس باپ سے بھی پوچھے جس کی گود میں اس کی بچی نے دم توڑا،اس ماں سے بھی جاکے پوچھے جس کی گوداجڑگئی ہے۔اس خاندان سے جاکر دریافت کریں جس کاچراغ بجھ گیاپھرشائد یہ پتہ چلے کہ کس کو کون عزیزہے۔کہتے ہیں ایک دفعہ ایک بادشاہ نے اپنے نوکر سے کہاکہ جاؤاور سب سے پیاراسب سے خوبصورت بچہ لاکر میرے سامنے پیش کرو۔نوکر گیااور دن بھر کی تلاش کے بعد میلے کپڑوں میں زیب تن اپنے بیٹے کو اٹھاکر بادشاہ کے حضور پیش کیا۔بادشاہ نے پھرحسین بچہ لانے کاکہاتواس نے پھر اسی عمل کودہرایابادشاہ نے غصے میں آکر کہامیں تمہیں حسین بچہ لانے کاکہتاہوں اور تم اپنابچہ اٹھاکرلاتے ہوتونوکر نے کہا بادشاہ سلامت میں دنیابھرکے بچوں کودیکھتاہوں مگرمجھے اپنے بیٹے سے زیادہ کوئی بچہ حسین نظرہی نہیں آتا۔مطلب یہ ہواکہ نثار کھوڑوجیسے سیاسی مداریوں کوبلاول بھٹوعزیزہوگااس سے کوئی اختلاف نہیں مگر بسمہ مرحومہ کے والدین کو اپنی بچی کسی بھی بلاول سے زیادہ عزیزتھی اس بات کابھی احساس ہوناچاہئے۔نثارکھوڑواور پی پی پی کی دیگر قیادت کو مرحومہ کے گھر جاکر تعزیت کرنے کے ساتھ ساتھ معافی بھی مانگ لینی چاہئے تھی نہ کہ غیرمنطقی جوازڈھونڈتے پھرتے۔ غیرمعمولی سیکورٹی کے باعث پیش آنے والے مذکورہ واقعہ پر جب شوراٹھاتوآوازدبئی تک جاپہنیچی تب ہی تو آصف علی زرداری نے نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کومرحومہ کے گھر جانے اور اس کے والدین سے ملاقات کرنے کی فوری ہدایت کی۔دوسری جانب بلاول بھٹو زردای نے بھی واقعہ کانوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ کومعاملے کی تحقیقات کرنے اور 72گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیاہے۔سوال یہ اٹھتاہے کہ تحقیقات کیوں ؟کیایہ تعین کافی نہیں کہ جان لیواوی وی آئی پی پروٹوکول اورغیرمعمولی سیکورٹی ہی نے بچی کی جان ؂لے لی ہے۔ ادھروزیراعظم نے متاثرہ خاندان کے لئے ایک لاکھ روپے کی فوری امداد کااعلان کیاہے جبکہ تحریک انصاف کے فیصل واڈا اور عمران اسماعیل نے مرحومہ کے گھرجاکراظہارہمدردی کیااور کہاکہ وہ متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ایم کیوایم کی قیادت،پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اورانسانی حقوق کے علمبرداروں نے بھی اسی قسم کے جذبات کااظہارکرتے ہوئے سندھ حکومت اور پی پی پی کی قیادت کو تنقید کانشانہ بنایاہے مگرایک بات توطے ہے کہ کوئی کچھ بھی کہیں اور کچھ بھی کریں بسمہ اب زندہ ہوسکتی ہے نہ ہی اس کے والدین کوان کی بچی واپس مل سکتی ہے البتہ اگروی آئی کلچرکے خاتمہ کویقینی بنایاجائے تومستقبل میں ایسے واقعات کاتدارک ممکن ہوسکتاہے بصورت دیگر انسانیت کایوں سرعام قتل ہوتارہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں