محترمہ بی بی ایان علی صاحبہ قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ ان کے نام کے ساتھ یہ تمام لاحقے جلد یا بدیر شامل ہو جائیں گے ۔ اور نہ جانے تقسیم پاکستان سے پہلے اور فوراً بعد کچھ جاگیرداروں کو جب ” سر” کا خطاب دیا جاتا رہا ہے جو کبھی سمجھ میں نہیں آ سکا ۔ وہ اب سمجھ میں آنا شروع ہو گیا ہے۔ ایک بزرگ اکثر اوقات بڑے فخر کے ساتھ بتاتے ہیں کہ ان کے ایک جد نے1857میں سکھوں کے ساتھ لڑائی میں انگریزوں کی بہت زیادہ مدد کی لیکنLord Nicholson کے زخمی ہونے کی وجہ سے وہ انہیں بچا نہیں سکے لیکن انگریز نے وفاداری کے صلے میں آخری لمحات میں کسی نہ کسی طرح یہ جملے لاہور میں انگریز سرکار تک پہنچانے کا بندوبست کر دیا کہ ” Hata Did Very Well to Save my Life”۔ (ہاتا نے میری زندگی بچانے کی بھرپور کوشش کی )۔ انگریز کمانڈر تو مر گیا لیکن ہاتا یہ پیغام لیے لاہور جا پہنچا اور انگریز سرکار نے وفادری کے صلے میں84 گاؤں ہاتے کو دے دیے یا یوں کہہ لیں کہ 84 گاؤں ہاتے کی غلامی میں دے دیے۔ یہ وفاداری کا صلہ تھا۔(ہاتے کی انگریز سرکار سے وفاداری مہر شدہ ہے۔ اور تاریخ میں اس بارے واضح الفاظ بھی ملتے ہیں کہ کیسے انگریز کمانڈر زخمی ہوا اور کسیے انگریز سرکار نے اس کی خدمات کا اعتراف کیا۔ ہاتے کا نام سہواً اس لیے نہیں تحریر نہیں کیوں کہ قارئین کو معلومات دینا اہم ہے کسی کی ذات پہ بحث نہیں)
نہ جانے کیوں محترمہ بی بی ایان علی صاحبہ کے کیس کے پس منظر میں جانے سے ہاتا خان کی کہانی یاد آ گئی ۔ وجہ شاید وفادری ٹھہری ۔ایان نے بھی کیا خوب وفا نبھائی ۔ اور وفا کے صلے میں شہرت کی بلندیاں پا لیں۔ جب جیل کی سلاخوں کے پیچھے چند ” سرپھرے کھٹمل” مستقبل کی سپر ماڈل ) اب ہی تو سپر ماڈل بننے کے سفر کا آغاز ہوا ہے) کو کاٹنے کی جرات کر بیٹھے تو وہ ہاہا ہو ہو کار مچی کہ الاماں۔ فوراً جیل سے ایک بیان گرتے پڑتے میڈیا کی زینت بنا کہ اگر میرے کیس پہ توجہ نہیں دی گئی تو سب کا کچا چھٹا کھول دوں گی۔ فوراً ایک منجھے ہوئے سیاستدان۔۔۔ نہیں نہیں ایک منجھے ہوئے وکیل۔۔ ارے بھئی دونوں ہی سیاستدان کم وکیل کو ایان کے کیس کی بھاگ دوڑ تھما دی گئی ۔اور پھر پیشی پہ پیشی ۔ اور میڈیا میں کیس سے زیادہ لباس و سنوار کے قصے ۔ شاید نیچے سے اوپر تک سب کو خبر ہو گئی تھی کہ اصل منظر سے عوام و میڈیا کی توجہ ہٹے گی تب ہی تو کیس کو پس منظر میں ڈالا جا سکے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔اور "خبری” بتاتے ہیں کہ دیارِ غیر سدھارنے کی تیاریاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ وہ بھی نجی طیارے میں۔ اب اس پہ نہ کسی نے توجہ دی نہ کوئی دیتا ہے کہ نجی طیارہ وہ بھی ایک ماڈل کے پاس۔
آج کل زیر عتاب رہنے والے ایک سیاستدان کو کہتے سنا کہ جس دورے میں بیوٹی کوئین پکڑی گئیں وہ ان کا 81واں دورہ تھا۔ پہلے کے 80دورے کب کیے گئے؟ کہاں کے کیے گئے؟ کتنی رقم باہر بھیجی گئی؟ کس کی رقم بھیجی گئی؟ ایان کو کتنا ملا؟ بھجوانے والے کو کیا بچا؟ کس جگہ بھیجا گیا؟ کس ملک بھیجا گیا؟ ان سوالوں کی طرف میڈیا سمیت کسی نے بھی توجہ دینا گوارا تک نہیں کیا آخر کیوں توجہ دی جائے۔ کیوں کہ اَسی دورے یقیناًحسین سراپے کی جُنبشِ گیسو کی ایک لہر پہ قربان ۔
اس وقت حیرانگی کی انتہا نہیں رہی جب خود سپر ماڈل نے کہہ ڈالا کے میڈیا میں اس کا غلط تاثر اجاگر کیا جا رہا ہے۔ اور عدالت میں جذباتی تقریر بھی اس حوالے سے موضوعء بحث رہی ۔ کاش میڈیا ماڈل کو موضوعء بحث نہ بناتا ۔ کاش اس کی زلفوں کا اسیر میڈیا ایان کو وقت سے پہلے سپر ماڈل نہ بناتا تو پھر شاید اس کیس کے حوالے سے حقائق جلد ہی سامنے آ جاتے۔ قرائن سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایان علی کی عدالت پیشی کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ضرورت سے زیادہ میڈیا کی زینت بنایا جاتا رہا۔ ایان علی کے شربتی حسن کے چرچے جان بوجھ کر زبان زدعام کیے جاتے رہے۔ عوام کو جان بوجھ کر ماڈل کے خوبصورت سراپے میں الجھا کر توجہ اس امر سے پھیر دی گئی کہ اگر ایک پھیرے میں پانچ لاکھ ڈالر تو اسی پھیروں میں کم از کم چار کروڈ ڈالر۔یعنی کم و بیش چار ارب پاکستانی روپے۔ یاد رہے یہ انتہائی محتاط اندازہ ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ لہروں کے دامن سے پانچ کروڑ ڈالر یعنی پانچ ارب پاکستانی روپے۔ یہ صرف وہ ہیں جو سامنے آ گئے۔ عوام کو ایسا حسینہ کی زلفوں میں الجھا دیا گیا کہ یہ اعدادو شمار عوام کے دل و دماغ سے محو ہی ہو گئے۔
قانون کی راہداریوں سے سیاست کے ایوانوں تک ۔ آہستہ آہستہ تمام حقائق پس منظر میں چلے گئے سامنے رہا تو بس یہ ذکر کہ ماڈل نے آج کیا پہنا صراحی دار گردن سے سراپا کیا رنگ دکھا رہاہے وغیرہ وغیرہ۔ یا پھر میک اپ میں کیا کیا مہارتیں دکھائی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ جیل میں جوس کے مطالبات جیسی خبریں بھی بریکنگ نیوز کے طور پر چلتی رہیں۔ اوجھل رہا تو صرف یہ سچ کہ یہ پانچ لاکھ ڈالر آئے کہاں سے ؟ اپنے تھے تو کیا ٹیکس دیا گیا؟اپنے نہیں تھے تو کس کے تھے؟ جس کے تھے اس سے تعلق کیا تھا؟ جو تعلق تھا اس کی نوعیت سے ملک کو کیا نقصان پہنچا؟؟
ایان نامہ چلنے سے ایان علی کو دو فائدے ہوئے ۔ ایک تو وہ میڈیا کے لیے ہاٹ کیک بن گئیں۔ دوسرے وہ شہرت کی ان بلندیوں پر پہنچ گئیں جن تک پہنچنا شاید ان کا خواب تھا۔ پہلے وہ ماڈل تھیں یا نہیں لیکن اب وہ یقیناًسپر ماڈل ہیں۔ اور بمطابق اعلان وہ شاید مستقبل قریب میں کتاب لکھ کر لکھاریوں کی فہرست میں جگہ بھی بنا لیں۔ کیوں کہ عظمت کی بلندیاں تو وہ پہلے ہی چھو چکی ہیں اب صرف کچھ لفظ لکھنا باقی ہیں اور ” عظیم لکھاری” کہلوانے سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ لکھنے والے کا نام یاد نہیں لیکن الفاظ یاد ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ ایان علی کو بلاوجہ میڈیا میں ایشو بنا دیا گیا ہے۔ اگر وہ بھی کسی سیاستدان ، جاگیردار یا وڈیرے کی بیٹی ہوتی تو میڈیا ہرگز اس کی تشہیر نہ کرتا۔ میں ایان علی سے زیادہ لکھنے والے کی سوچ پہ حیران ہوں۔ آخر ایان علی کو اس سارے معاملے میں کیا نقصان ہوا؟ اسے کوئی جانتا نہ تھا۔ اب وہ اس ملک کی ایک اہم شخصیت بن چکی ہے۔ وہ ماڈل تھی نہیں بلکہ اب بن چکی ہے۔ جیل یاترا نے اسے لیڈروں جتنی شہرت دے دی ہے۔اتنی زیادہ میڈیا ٹاک سے اس کے اَسی دورے پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اس سے جڑے اہم نام تک سر د خانوں میں چلے جائیں گے۔ اور قسمت نے یاوری کی تو اب اسے کوئی ائیرپورٹ پر چیک بھی نہیں کرے گا کیوں کہ اب تو سب اسے پہچاننے بھی لگ گئے ہیں۔پکڑنے کے بجائے ساتھ سیلفیاں بنیں گی۔ تو پھر اس تشہیر سے ایان کو ایسا کیا نقصان ہوا جس سے لکھنے والے کو اتنا درد محسوس ہوا۔ اس بے جا تشہیر سے الٹا جرائم پہ پردہ پڑتا چلا گیا ایسا پردہ جو شاید باجود کوشش کے اتر نہ سکے۔