263

خیبر پختوپختوا حکومت کا این ایف سی ایوارڈ کیلئے سیاسی جرگہ بلانے کا فیصلہ

پشاور(نمائندہ ڈیلی چترال )خیبر پختوپختوا حکومت نے نئے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تشکیل میں حد درجہ تاخیر اور صوبے کی حق تلفیوں سے متعلق ماضی کے تلخ تجربات کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل جرگہ بلانے اور سندھ و بلوچستان سمیت باقی صوبوں کو بھی اعتماد میں لینے کیلئے نیا لائحہ عمل اپنانے کا فیصلہ کیا ہے صوبے کی بیوروکریسی نے بھی مالیاتی حقوق پر صوبائی حکومت کا بھرپور ساتھ دینے کا یقین دلایا ہے وفاق کو نویں این ایف سی ایوارڈ کیلئے اجلاس جلد بلانے اور صوبائی حقوق کی واگزاری یقینی بنانے پر آمادہ کرنے کیلئے وزیر خزانہ مظفر سید ایڈوکیٹ کی زیرصدارت ہفتہ کو سول سیکرٹریٹ پشاور کے کمیٹی روم میں اجلاس ہو اجس میں نئے ایوارڈ کے بارے میں پیشرفت اور صوبائی حکومت کی حکمت عملی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا جبکہ اس ضمن میں جامع سفارشات بھی مرتب کی گئیں اجلاس میں سیکرٹری خزانہ علی رضا بھٹہ، سپیشل سیکرٹری کامران رحمان، کنسلٹنٹ احتشام الحق اور دیگر متعلقہ حکام کے علاوہ پروفیسر محمد ابراہیم خان، نورالحق اور ضیاء الرحمان سمیت کمیشن کے ممبران اور محکمہ خزانہ سے وابستہ سابق سینئر بیورو کریٹس نے بھی شرکت کی اور صوبے کو درپیش مسائل و مشکلات سے اگاہی کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کا کیس موثر انداز میں پیش کرنے کیلئے تجاویز پیش کیں اجلاس میں دیگر امور کے علاوہ صوبے میں حقیقت پسندانہ بنیادوں پر غربت اور پسماندگی کے اشارئیے مرتب کرنے، اس ضمن میں محکمہ منصوبہ بندی و ادارہ شماریات کو فعال بنانے، مالیاتی مشیروں کی تعداد میں فوری اضافے اور تجربے کار کنسلٹنٹ مقرر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا مظفر سید نے ایوارڈ کے سلسلے میں مکمل حمایت پر اجلاس کا شکریہ ادا کیا تاہم انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مرکز مالیاتی کمیشن سمیت صوبوں اور عوام کے حقوق کی ادائیگی کا نظام انکے وسائل اور ضروریات کی بنیاد پر خودکار بنانے کی بجائے ہر چیز کو سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا رہا ہے جو کسی طرح بھی قومی مفاد میں نہیں اس صورتحال میں ہمارے لئے جملہ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا بھی ناگزیر ہو گیا ہے جس کیلئے عنقریب ہنگامی بنیادوں پر مزید کئی اقدامات ہونگے پن بجلی منافع کا دیرینہ قضیہ ثالثی کمیٹی کے حل کرانے پر انہوں نے اس وقت کے وزیرخزانہ اور سینیٹر سراج الحق کو خراج تحسین پیش کیا تاہم واضح کیا کہ کیپ تو ختم ہو گیا مگر اے جی این قاضی فارمولے کے تحت ہمارا 635ارب روپے کا مطالبہ برقرار ہے جس کیلئے الگ اجلاس طلب کیا جارہا ہے تیل و گیس سیس کی مد میں 29ارب روپے اور 1991 کے پانی تقسیم معاہدے کے تحت 119ارب روپے کی ادائیگی بھی باقی ہے انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور چیف سیکرٹری امجد علی خان کے مسلسل رابطوں اور سیاسی بصیرت کو بھی سراہا اور واضح کیا کہ صوبے کی مالیاتی حالت کی بہتری کیلئے ٹھوس اور دور رس اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکے ہیں انہوں نے نورالحق کے استدلال سے مکمل اتفاق کیا کہ صوبے میں بیروزگاری، افغان مہاجرین و آئی ڈی پیز،دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل کی وجہ سے غربت اور پسماندگی کا گراف آسمان کو چھونے لگا ہے جس کا وفاق کو احساس ہونا چاہئے اور اسکی تلافی آئین کے مطابق حقوق کی جلد از جلد ادائیگی میں مضمر ہے ہم صحت اور تعلیم سمیت متعدد سماجی شعبوں میں میگا منصوبوں پر عمل چاہتے ہیں مگر مالیاتی مسائل آڑے آجاتے اور ترقیاتی منصوبے تشنہ رہ جاتے ہیں یہ انصاف نہیں کہ مرکز ہمارے حقوق پر خاموش ہو کر صرف تماشا دیکھے ہمارے صوبے کو قیمتی آبی وسائل کا فائدہ بھی نہیں پہنچایا جا رہا وفاق نے ضامن بن کر پانی کی تقسیم کا معاہدہ کرایا مگر ایک عشرہ تک پہلے ہمارا تیس لاکھ مکعب فٹ پانی دوسرے صوبے استعمال کرتے رہے جسکی مالیت 2005 میں متعین کردہ شرح کے مطابق ایک کھرب انیس ارب روپے بنتی تھی اور ہمارے اس مالی نقصان میں اب کئی گنا اضافہ ہوا ہے ہم اپنا یہ کیس مشترکہ مفادات کونسل میں لاچکے مگر حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا اسلئے ہم اب مجبورا اپنے حق کا پانی بیچنے کیلئے بھی نیا لائحہ عمل اپنانے پر مجبور ہونگے اسی طرح دہشت گردی کی مد میں فنڈز کے صرف ایک فیصد کی ہمارے صوبے کو فراہمی ہماری کمزور معیشت کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے اور اسے فوری طور پر کم از کم پانچ فیصد کرنا بھی ناگزیر ہو چکاہے اس صوبے کا معاشی استحکام پوری قومی ترقی کا ضامن بنے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں