گاؤں میں نمبرداری جاگیرداروں کو ہی ملتی ہے اور سرکار بھی جاگیرداروں کے ہی ہاتھ میں ہوتی ہے اسی طرح ایک گاؤں میں جاگیردار کے ظلم سے تنگ آ کر ایک نوجوان نے مسلح جہدو جہد شروع کر دی۔ وہ نہ جاگیردار کے ظالم کارندوں کو بخشتا اور نہ ہی ان سرکاری کارندوں کو جو جاگیردار کی ہاں میں ہاں ملانے کو ہی کام تصور کرتے تھے۔نتیجتاً گاؤں کے لوگوں کے لیے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ” دیسی رابن ہڈ” بنتا گیا کیوں کہ وہ غریبوں کی نہ صرف ہر ممکن مدد کرتا تھا(رابن ہڈ ایک دیو مالائی کردار تھا جس کا باقاعدہ ذکر تو تیرہویں اور چودہویں صدی میں ملتا ہے۔ لیکن اس کا تعلق برطانوی بادشاہ رچرڈ(اول) سے جوڑا جاتا ہے ۔ رابن ہڈ کی جہدو جہد بھی اس اشرافیہ کے خلاف تھی جو غریبوں کے لیے حالات زندگی تنگ کر دیتی ہے)۔ بلکہ جاگیردار کا مال و اسباب بھی اس کے ہاتھوں تاتار ہو کے غریب آدمی تک پہنچ جاتا تھا۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ظالم حاکم سے چھین کر مظلوم محکوم تک پہنچانا اس نے اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ نوجوان کے ہاتھوں لٹے جاگیردار و حاکم اکھٹے ہونا شروع ہو گئے اور بالآخر وہ اس نوجوان پہ قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ جس دن وہ نوجوان ان کے قابو آیا اس روز جاگیرداروں کی حویلی میں بھی جشن کا سماں تھا ور سرکار ی کارندوں کے ڈیروں پر بھی۔ شادیانے سر بکھیر رہے تھے ۔ رقص و سرور کی محفل گرم تھی ۔۔۔ جب کہ مظلوم و محکوم عوام کی جھونپڑیوں میں سوگ کا عالم تھا کیوں کہ وہ تو اس نوجوان کو اپنی امیدوں کا مرکز بنا بیٹھے تھے۔ اور یہ خواب دیکھ بیٹھے تھے کہ وہ وقت دور نہیں جب وسائل پہ ان کا بھی برابر حق ہو گا۔لیکن شو مئی قسمت کہ ایسا ہو نا پایا۔
اس فرضی کہانی کا تعلق ہرگز بھی حالیہ ” گرم بیان” سے نہ جوڑیے گا جس میں آرمی چیف آف پاکستان نے اپنی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قیاس آرائیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس کہانی کا کسی بھی قسم کا تعلق ان خوشیوں سے بھی نہ جوڑیے گا جو لاہور وکراچی کے محلات میں منائی جا رہی ہیں۔(حالیہ بیان ہرگز بھی حُب علی کے مصداق نہیں ہے) اس کہانی کا دور تک اس بات سے بھی کوئی لینا دینا نہیں کہ یہ جو مبارک سلامت کا شور سا برپا ہے۔ نہ ہی اس بیان کو اس سوگ زدہ طبقے سے منسوب کیجیے گا جو گاڑیوں کے پیچھے تصویریں چسپاں کیے بیٹھا تھا۔ خوشی کا تعلق ٹوئٹر بیان کے بجائے بس جمہوریت کی مضبوطی پہ ہے۔ شکر ہے پاک پروردگار کا کہ جمہوریت پہ کوئی حرف نہیں آیا۔ اور جس طرح کے حالات پچھلے چند ماہ میں پیدا کر دیے گئے تھا شکر ہے خدا کا کہ حالات پیدا کرنے والے کامیاب ہوئے اور جمہوریت مضبوط ہو گئی۔
پاکستان کے معروضی حالات میں جمہوریت کی مضبوطی ہی کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ باوردی افراد توسیع کے حق میں جانے کے اس لیے بھی اہل نہیں کیوں کہ وہ تو وردی پہنے ہوئے ہیں۔ اور جمہوریت تو صرف اور صرف کرتا شیروانی پہنے سیاستدانوں کے گھر کی باندھی ہے۔ اور یہ آپ کس بحث میں الجھ گئے کہ تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم شاید چوتھی مرتبہ کے بھی خواب دیکھ رہے ہیں۔ توبہ کیجیے حضور! کچھ بعید نہیں کہ ایک اور ترمیم چوتھی مدت کی راہ بھی ہموار کردئے کیو ں کہ جمہوریت کی مضبوطی مقصود ہے۔اور ایک ڈاکٹر عاصم کو بچانے کے لیے پوری سندھ اسمبلی یرغمال بن جاتی ہے تو ہرگز کوئی برائی نہیں کیوں کہ یہ سب تو جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اور ایک غیر منتخب شخصیت کے لیے وزیر اعظم ہاؤس میں میڈیا سیل بن جاتا ہے تو اس میں بھی کوئی برائی نہیں۔ کیوں کہ مستبقل کے وزیر اعظم کا اتنا حق تو بنتا ہے جمہوری حکومت میں۔ بلوچستان جیسے صوبے میں بانٹ کر کھانے کے فارمولے کے تحت ڈھائی سالہ پروگرام نافذ ہے تو یہ بھی تو جمہوریت کی مضبوطی ہے۔
اس بات میں بھی ہرگز دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ آرمی چیف نے بجا ء طور پر ارشاد فرمایا کہ فوج بطور ادارہ بہت مضبوط ہے اور اسی لیے ان کو اعتماد ہے کہ یہ ادارہ ان کے شروع کیے گئے اچھے اقدامات کو جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ جب جنرل راحیل شریف نے فوج کی کمان سنبھالی تھی تو سب سے اہم ذمہ داری اس کا مورال بلند کرنا تھا اور اس کو بطور ایک ادارہ مزید مضبوط کرنا تھا۔ اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ فوج اس وقت پاکستان کا واحد ادارہ ہے جو پیشہ وارانہ ذمہ داریاں احسن طریقے سے سر انجام دے رہا ہے۔ فوج نہ صرف خود کو سیاست سے بالاتر کر رہی ہے بلکہ اپنا اندرونی ڈھانچہ بھی مزید مضبوط کر رہی ہے جس میں اندرونی احتساب پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔
آئی ایس پی آر کے حالیہ پریس ریلیز کے بعد جہاں توقعات میں اضافہ ہو گیا ہے وہیں بہت سے خدشات نے بھی جنم لیا ہے۔ ایک طرف جہاں سیاستدان اس کو سراہا رہے ہیں وہاں عوام میں ایک سوگ کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جنرل راحیل شاید وہ واحد جنرل ہیں جن کی زندگی میں ہی گاڑیوں کے پیچھے ان کی تصاویر سے مزین نقش و نگار بننا شروع ہو گئے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا بھی ان کو پاکستان کی تاریخ کا مضبوط ترین فوجی سربراہ کہہ رہا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ جب سیاستدان یہ راگ الاپتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے توسیع نہ لینے کا اعلان کر کے عوامی امنگوں کی ترجمانی کی ہے ۔ حالانکہ عوام تو شدید دکھ اور افسوس کی حالت میں ہیں کہ ایک مخلص کمانڈر ان کو چھوڑ کر جا رہا ہے۔ ایک محدود عوامی سروے میں جب کم و بیش 30 لوگوں سے رائے لی کہ جناب آپ اس توسیع نہ لینے کے بیان پر کیا کہتے ہیں تو سب کی مشترکہ رائے تھی کہ جنرل صاحب کو یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے۔ تو پھر وہ کون سی عوام ہیں جن کی امنگوں کا محور توسیع نہ لینا تھا۔
کراچی میں رینجرز آپریشن ہو یا بیرونی سلامتی کے امور، دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ ہو پھر سیاسی استحکام، ضرب عضب ہو یا پھر اندرون ملکوں دہشت گردوں کا مقابلہ عوام کا نقطہ نظر بہت واضح رہا ہے کہ وہ جنرل راحیل شریف کو بطور فوجی سربراہ نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔اور اس وقت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ” کدھر خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں، اور کدھر سوگ کی سی کیفیت ہے”۔ عوامی نمائندے ایک انجانے سے خوف میں مبتلا تھے اور اب اس اعلان کے بعد خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ جب کہ عوام ایک پر سکون کیفیت میں سے ایک خوف کی طرف جا رہے ہیں اور سوگ کی سی کیفیت میں ہیں۔ ابھی حالات اللہ کرئے واقعی اگلے پانچ سے چھ ماہ میں عوامی امنگوں کے مطابق ہی ڈھل جائیں۔