فقیر خان بڑا جہاندیدہ آدمی ہے ۔ فوج میں بھی رہ چکا ہے۔دنیا جہاں کی باتیں کرتا ہے۔ باتوں سے دانشمندی ٹپکتی ہے۔جہان دانش و منطق حد سے زیادہ ہو وہاں دل گھبرانے لگتا ہے چنانچہ اس کی اس رو کھی فلسفہ آفشانی سے میں تنگ آگیا تھا ۔ کبھی کبھی میں اس کو صاف صاف بتا دیتا تھا کہ دن بھرسڑکیں ناپنے کے بعد شام کو آکر اپنی دانشوری مجھ پر آزمانے لگتے ہو ۔ مگر وہ بول بول کر تھک جاتا ہے اور گردن کو ایک خم دیکر سر جھکا کر اپنی راہ لیتاہے۔
چند دن غائب رہنے کے بعد اس دفعہ فقیر خان سے سرِ راہ ملاقات ہوئی۔ ٹہلتے ٹہلتے چوک تک پہنچ گئے ۔ مارکیٹ کے اندر بھدی موسیقی کی چیخ سنائی دے رہی تھی۔ ’’یہ دنیا بھی بڑی بے ترتیب ہے۔کوئی ترتیب ، کوئی ڈسپلن نہیں ۔ہر طرف ہنگامہ اور بد نظمی ہے۔ دیکھو۔۔! اس بازار میں ہر چیز ہے۔ بھانت بھانت کے لوگ ، ان کے رنگا رنگ مسائل ، طرح طرح کے کام ، خوشیاں ، غم سب مختلف، کسی کی معذوری اس کا مسئلہ ہے ، کسی کی غریبی اس کا دردِ سر ہے ، کسی کے پاؤں میں افسری کی مہندی لگی ہے ، کسی کو اناکا مسئلہ لاحق ہے ۔ کوئی بیمارہے اور کوئی دووقت کی روٹی کے لئے مارا مارا پھرتا ہے ۔ ہر کوئی اپنے ساتھ اپنی طاقت کے مطابق دنیا لے کر رینگ رہا ہے ۔ لیکن اس حرکت میں نظم نام کی کوئی چیز ہے اور نہ سکوں میں ترتیب ۔بڑی بھونڈی حرکت ہے ۔ ‘‘ فقیر خان کے اندر کا دانشور پوری طرح باہر آنے لگا تھا ۔میں بے دلی سے سن رہا تھا ۔ سامنے ٹریفک کا سپاہی کالے چشمے لگائے میکانیکی انداز میں ٹریفک کو راہ راست پر ڈال رہا تھا ۔ فقیر خان سپاہی کی طرف اشارہ کر کے پھر گویا ہوئے ۔ دیکھو ۔۔۔!اس سپاہی کویہی لوگ ہیں جو اس بے ترتیب دنیا میں نظم وضبط کے رکھوالے ہیں ۔ یہ ہمارے محافظ ہیں ۔ ہمارے محسن ہیں ۔ دھوب ہو یا بارش ہر وقت بے ہنگام ٹریفک کا قبلہ سیدھا رکھنے میں مصروف رہتا ہے ۔سپاہی کے کئی روپ ہوتے ہیں ۔میں بھی سپاہی رہ چکا ہوں ‘‘
’’ تو کیا سارے لوگ بازار میں لفٹ رائٹ ۔ لفٹ رائٹ کہتے ہوئے مارچ پاس کرتے جائے۔بھائی یہ کوئی فوجی چھاونی نہیں بازار ہے بازار،، میں نے کہا۔
’’ نہیں نہیں ‘‘
اس کا لہجہ معذرت خواہا نہ تھا ۔
’’ ایسی با ت نہیں ہے ۔ مجھے سپاہی لوگوں سے بہت محبت ہے ۔۔۔۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ سپاہی کے کئی روپ ہوتے ہیں ۔ یہ ہر رنگ اور ہر روپ میں عظیم ہیں ۔ کوئی شہروں ، سڑکوں گلی کوچوں میں عوام کی جان ومال کی حفاظت پر مامور ہیں ۔ کوئی برف زاروں اور اور تپتی صحراؤں میں وطن کی سرحدوں کے دفاع میں لگے ہوئے ہیں ۔ شہر کے فصیلوں پہ ، چیک پوسٹوں میں،ناکے پر ہر جگہ یہ سپاہی لوگ اپنے کا م میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ مگر ہم عوام ان کے ساتھ تعاون بالکل نہیں کرتے کسی چیک پوسٹ یا ناکے پر رکنا ، یا گاڑی روکناہم خلاف شان سمجھتے ہیں ، بھائی آپ ہی بتائیں کیا کسی چور کی پیشانی پہ لکھا ہے کہ یہ چور ہے یا کوئی دہشت گرد ناکے پہ آکے علان کرتا ہے کہ میں دہشت گرد ہوں ؟ تو عوام کی جان ومال کی حفاظت کی خاطر ان کا فرض بنتا ہے کہ ہر راہگیر کو روک کر ا س کا نا م و پتہ معلوم کریں ۔ لیکن ہمیں ہر کام میں جلدی ہوتا ہے۔ اگر سیکیورٹی اہلکار نام پتہ پوچھے تو ہم ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔ان پر برس پڑتے ہیں ۔ کوئی بھی تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ بھاری بندوق اٹھائے تپتی دوپہروں اور ٹھٹھرتی صبحوں میں یہ سخت جان لوگ ۔۔۔۔۔میرا تو جی کرتا ہے کہ ان کے کھردرے ہاتھوں کو بوسہ دوں اورآنکھوں سے لگاؤں‘‘ فقیر خان بولے جا رہا تھا اب ا س کی زبان میں دانشوری نہیں درد تھا۔
’’ سب سے بڑھ کر وہ سپاہی جو دشمنِ وطن کے تعاقب میں جان سے گزر جاتے ہیں ۔۔۔ آپ نے کبھی دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ایسے سپاہی ۔۔۔واہ کس ڈھب سے جیتے ہیں اور کس شان سے مر تے ہیں ۔۔۔۔ میں نے ایسے سینکڑوں جیتے جاگتے سپاہیوں کو مسکراتے ہوئے جان دیتے دیکھا ہے ۔ جب میں فوج میں تھا تو میرا ایک نو عمر دوست تھا اس کا نام عمران تھا بہت ہی وجیہہ نوجوان تھا ۔ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔ سکون ، امن اور آسودگی ہو تو ہر کوئی خوش رہتا ہے مگر عمران کو مشکل سے مشکل وقت میں بھی میں نے خوش رہنے کا سلیقہ آتا تھا۔ خبر اڑتی ہے دشمن سامنے پہاڑی کے عقب میں پہنچ گیا ہے،کچھ دیر میں ہم کوچ کر جائینگے ۔ سب لوگ فکر مند ہوتے ہیں مگر عمران کے چہرے پر وہی دلنواز مسکراہٹ جوں کے توں تیرتی رہتی ۔ایک موقع ہم دشمن کے نرغے میں آگئے، ہمارے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا۔تین دن تک ہم بھوکے پیاسے لڑتے رہے ۔ سب کے چہرے اترے ہوئے تھے ۔بھوک تھی ، پیاس تھی، تھکاوٹ تھی، طبیعتوں میں چڑچڑاپن تھا مگر عمران کا شبنمی مزاج ویسا ہی رہا اور نہ ہی ا س کی پھرتی اور دلیری میں کوئی فرق آیا۔یوں یہ پہاڑ جیسے تین دن عمران کی وجہ سے آسان گزرے۔ ایک دن دشمن نے گولہ باری کی سب نے مورچے سنبھال کر جوابی کاروائی شروع کی عمران اس کاروائی میں پیش پیش تھا اس کی فائیر کی زد میں آکر دشمن کے سینکڑوں آدمی کھیت رہے ۔اچانک دشمن کی طرف سے ایک آوارہ گولی آئی اور عمران کے سینے میں پیوست ہوگئی۔عمران نے میری گود میں سر رکھ کر جان دیدی۔اس کے چہرے پہ ترو تازہ مسکان اب بھی موجود تھی ‘‘
فقیر خان نے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کی اور گردن کو ایک خم دیکر گلی کی طرف لمبے لمبے ڈگ بھرنے لگا۔ تب سے مجھے فقیر خان کی باتیں سننے کی لت سی پڑ گئی ہے۔