حکمران نے فجر کی نماز با جماعت پڑھی ۔ پھر سویا نہیں ۔اپنے کمرے میں آکر تلاوت قرآن عظیم الشان میں مشغول ہوگئے ۔ آج معمول سے پہلے ناشتے کی میز پر آکر بیٹھ گئے ۔ناشتہ رکھا گیا تھا ۔ حکمران خاموشی سے سارے ماکلات و شروبات کو غور سے دیکھتے جاتے تھے۔ چہر ہ متغیرہ ہوتا جاتا تھا ۔ہنسی غائب تھی ۔میز پر بیٹھے ہوئے کسی کوجراء ت نہیں ہورہی تھی کہ ناشتہ شروع کر نے کی درخواست کر ے۔حکمران نے دیکھا کہ میز پر چائے ،جوس ،دودھ ، شہد ، ٹوسٹ ،انڈا ، املیٹ ، روسٹ ،حلوہ ، مچھلی ، کھیر ، پراٹھا ،مکھن ، روٹی اور کئی قسم کے میوے رکھے ہوئے تھے ۔حکمران ہر نعمت کو توجہ سے دیکھ رہے تھے ۔ اور سوز درون سے جل رہے تھے ۔انہوں نے آج رات سونے سے پہلے سیر ت فارو ق اعظمؓ پڑھی تھی ۔ پڑھا تھا کہ بیت المقدس کی چابیاں پیش کرنے سے پہلے عیسائی پادری اس کے کپڑوں پر لگے پیوند گنتے ہیں، شمار کر تے ہیں کہ 12 ہیں پادری تذیذب میں ہیں کہ ان کی مذہبی کتابوں میں اس کی پیوندوں کی تعداد 13 بیان ہوئی ہے یہ تو 12 ہیں ۔فاروق اعظمؓ ایک بازو اُٹھاتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ لوگن لو ایک بغل میں ہے ۔کل 13 ہیں ۔حکمران تڑپ اُٹھتا ہے ۔کیونکہ اقتدار کی عظیم امانت اس کے پاس بھی تھی ۔ اس نے مزید پڑھا کہ رعایا میں مشک تقسیم کرنی ہے ۔ فاروق اعظمؓ پریشان ہیں ۔بیوی کہتی ہے کیوں پریشان ہو ۔ لادو میں تقسیم کرتی ہوں ۔ فاروق اعظمؓ سوال کرتے ہیں کس چیز سے تقسیم کر وگی ۔ بیوی کہتی ہیں ہاتھ سے ،وہ فرماتے ہیں نادان عورت مشک کی قیمت اس کی خوشبو ہے وہ تمہاری ہاتھ کو لگے گی ۔ تقسیم کیا خاک کروگی ۔ انصاف کی دھجیاں اڑیں گی ۔ اس نے تڑپ کر کتاب رکھی تھی اس نے دوسری کتاب اُٹھائی یہ سیرت عمر بن عبدالعزیزؓ تھی ۔ اس میں لکھا تھا کہ ایک دن خلیفہ کی دو بچیاں جو کی سوکھی روٹی پانی میں بگو کر کھارہی تھیں ۔ لقمہ خلق سے اتر نہیں رہا تھا ۔بچیاں رو رہی تھیں ۔ عمر بن عبد العز یز انہیں دیکھ کر ان سے بھی زیادہ رو نے لگا ۔بیوی نے تسلی کے طور پر کہا ۔ بچیاں ہیں آہستہ آہستہ نگل جائیں گی خلیفہ المسلمین نے جواب دیا ۔میں اس لئے نہیں رو رہا ہوں کہ میری بچیوں کوجو کی سو کھی رو ٹی ملی ہے میں اس لئے رو رہا ہوں کہ ان کو یہ میسر ہے میر ی وسیع سلطنت میں اگر کوئی بچی اس سے بھی محروم ہے تو کل قیامت کے دن میرا گریبان پکڑے گی کہے گی کہ تیری شہز ادیوں کوجو کی سوکھی روٹی میسر تھی مجھے نہیں میں کیا جواب دونگا۔ میں قیادمت کے دن اللہ کے سامنے انصاف کے کٹھیرے میں کھڑا کیا جاؤنگا ۔حکمران تڑپ اُٹھا تھا ۔اور آج رات سونہ سکا تھا ۔ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ہر رات سیرت اسلاف تھوڑا تھوڑا پڑھے گا ۔تاکہ اس کو انصاف ، ایمان ، غیرت ، خدمت اور لیڈر شب کی روشنی ملتی رہیگی ۔ وہ خود بے مثال بن جائے گااور اپنی مملکت اور قوم کو بے مثال بنا دیگا ۔حکمران نے سوچا تھا ۔کہ اللہ ہر ایک کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق زندگی دیتا ہے۔مجھ میں بھی شاید ایسی صلاحیت ہے۔پھر دوسرے لمحے وہ معزو ر بن گیا تھا ۔مگر یہ سوچ کر تڑپ اٹھا تھا ۔ کہ اللہ موقع دیتا ہے اور صلاحیتوں کا امتحان لیتا ہے اس نے چیخ کر کہا تھا میر ے آقا! مجھے مزید صلاحیت دے مجھے ہمت دے میرا امتحان نہ لے ۔ حکمران نے چشم تصور سے دیکھا کہ ساری پاکستانی قوم ناشتے کی میز پر بیٹھی اُس کے سامنے ناشتہ کررہی ہے ۔بوڑھے ، بچے ،مرد اور عورت غریب امیر مگر حکمران تڑ پ اُٹھا کہ کوئی خشک سوکھی روٹی کاٹکڑا کھا رہے ہے ۔ کوئی کالی چائے پی رہا ہے ۔ کوئی باسی چاول گرم کر کے کھار ہاہے۔ کوئی دودھ شہد کامزہ لے رہا ہے ۔مگر سب ہنس نہیں رہے ہیں ۔رو کھی سوکھی والے زیادہ ہیں شکر بھی زیادہ کر رہے ہیں ہنس بھی رہے ہیں ۔حلوے انڈے والے کم ہیں ۔مگر کوئی نہ کوئی سقم میں مبتلا ہیں اس لئے ہنس نہیں رہے ہیں ۔شکر کا تو تصور نہیں حکمران پھر حقیقت کی دنیا میں آجا تاہے ۔ دیکھتا ہے کہ ساری چیز یں اسی طرح سامنے دھر ی ہوئی ہیں ۔اس نے سوچا کہ ایک انڈے کے ساتھ گرم روٹی کا دو لقمہ لے گا تو سیر ہوجائے گا ۔اور یہ ناشتہ ہوگا ۔ باقی سب اضافی ہیں ۔ اس کوقرآن عظیم الشان کی آیت یا د آتی ہے ۔فضو ل خرچ شیطان کے بھا ئی ہیں اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو ناشتے کی میز پر گر تے ہیں ۔ وہ اضطراب میں ایک ٹوسٹ کا ٹکڑا اُٹھا تا ہے دو لقمہ لیتا ہے ۔دودھ کا گلاس اُٹھا کر پی جاتا ہے اور کھڑ ے ہو کر منہ آسمان کی طرف کر کے کہتا ہے آقا! تو گواہ رہ ! یا تو آج کے بعد سارے پاکستانیوں کے ناشتے کی میزیں بھی ایسی چیز وں سے سجیں گی یا تو میری میز پر بھی ایک گرم روٹی کے ساتھ ایک کپ گرم چائے کی پیالی ہوگی ۔ میرے آقا مجھے زندگی کی اس چمک دمک سے بچا جس سے میری قوم محروم ہے اور آقا ! میری سر پہ خدمت کا تاج سجا ۔۔