188

دادبیداد…ڈاکٹر ایس اے رضا….ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ڈاکٹر ایس اے رضا کی وفات پشاور کا بہت بڑا سانحہ شمار ہو تا ہے آج سے نصف صدی پہلے پشاور میں ڈاکٹر ایس اے رضا اور ڈاکٹر الف خان کے دونام بڑے مشہور تھے، شعبہ بازار سے ڈبگری جا تے ہوئے لیڈی گرفتھ ہائی سکول کے سامنے ان کا شفا خا نہ تھا، صوبے کے دور دراز جگہوں سے پشاور آنے والے شہری بس میں سوار ہو کر اپنا کرایہ دیتے وقت کلینر سے کہتے تھے مجھے ڈاکٹر رضا کے ہسپتال جا نا ہے، خصو صاً بوڑھے مر د اور معمر خواتین ڈاکٹر رضا کے نام کو ہسپتال سے زیا دہ جا نتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر رضا اپنی مٹھا س بھری گفتگو اور دلنشین سلو ک سے آدھا مر ض دوا تجویز کر نے سے پہلے دور کر دیتے تھے اور یہ علا ج کا سنہرا اصول ہے ڈاکٹر کو سب سے پہلے مریض کے دل میں جگہ بنا نی چا ہئیے مریض کے سامنے اپنا اعتبار قائم کرنا چاہئیے، اعتماد اور اعتبار کے ذریعے مریض کو باور کرایا جا تا ہے کہ تمہارا علا ج محفوظ ہاتھوں میں ہے محفوظ ہاتھوں میں ہو نے کا احساس مریض یا مریضہ کے آدھے مرض کو دور کر دیتا ہے یہ اُس دور کی بات ہے جب لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کا واحد ہسپتال تھا، ڈاکٹر ایس اے رضا، ڈاکٹر نا صر الدین اعظم، ڈاکٹر الف خا ن، ڈاکٹر محب اللہ، ڈاکٹر اشفاق اور ڈاکٹر گردیزی اپنے اپنے شعبوں میں بڑے نا م گنے جا تے تھے چند سال پہلے ڈاکٹر صاحب کے سامنے ایک ڈاکٹر کا ذکر ہوا کہ ہرروز اپنے کلینک میں 140مریض دیکھتے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے پو چھا کتنے گھنٹے کا کلینک ہو تا ہے؟ بتا یا گیا کہ ڈھا ئی گھنٹے کا ہو تا ہے، انہوں نے پھر پوچھا 150منٹوں کو 140مریضوں میں تقسیم کرو تو ہر مریض کو کتنے منٹ ملتے ہیں؟حساب کر کے بتا یا گیا کہ ایک منٹ چار سکینڈ، ڈاکٹر صاحب نے پو چھا پھر ڈاکٹر کس طرح گفتگو کر تا ہے کس طرح تشخیص کرتا ہے اور کس طرح دوائی تجویز کرتا ہے؟ ان کو بتا یا گیا کہ ڈاکٹرکی میز پر دو مہر رکھے ہوئے ہیں پہلے کا غذ پر ایک مہر لگا کر دیتا ہے، مریض کا نا م بھی نہیں پوچھتا بیما ری کے بارے میں بھی لب کشا ئی نہیں کرتا نو کر مریض کو بتا تا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ٹیسٹ، ایکسیرے اور الٹرا ساونڈ وغیرہ کے لئے لکھا ہے ان کی رپورٹ لیکر واپس آجا ؤ، مریض جا تا ہے، ٹیسٹ کر کے رپورٹیں لا نا ہے دل میں سوچتا ہے اب ڈاکٹر مجھ سے بات کرے گا بیماری کے بارے میں پوچھے گا، مجھے تسلی دیکر دوا لکھے گا مگر دفتر میں داخل ہو تے ہی ڈاکٹر کا غذ پر دوسرا مہر لگا کر اُسے رخصت کر تا ہے دروازے پر کھڑا نو کر بتا تا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے دوائی لکھی ہے یہ دوائی لے لو، مریض کچھ کہنا چاہتا ہے مگر نو کر اگلے مریض کا نا م پکار تا ہے اور دروازہ بند کر دیتا ہے یہ واقعہ سن کر ڈاکٹر رضا ہنس پڑے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا یہ ان کی عادت ہی نہیں تھی ڈاکٹر رضا کی مقبو لیت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ مریض کو وقت دیتے تھے ہر مریض یا مریضہ کو 20منٹ سے لیکر 30منٹ تک وقت دیا کر تے تھے اس دوران مر ض کی پوری تاریخ معلو م کر تے اور مریض کو صحت یا بی کے لئے مفید مشوروں کیساتھ عمو می صحت کے حوالے سے آگا ہی اور ہدا یات بھی دیدیتے تھے اس طرح مریض اور معا لج کا با ہمی رشتہ، تعلق اور اعتما د قائم ہو تا تھا اس لئے ڈاکٹر کا نا م ہسپتال سے زیادہ مشہور ہوتا تھا گاوں میں کوئی بڑی تقریب ہو، کھا نے پینے کا دور دورہ ہو، انواع و اقسام کے مشروبات اور ما کو لات کا ڈھیر لگا ہوا ہو ایسے میں لوگ ڈاکٹر رضا کا نا م لیکر ایک دوسرے کو بد پرہیزی سے منع کر تے تھے کیونکہ ڈاکٹر کی نصیحت اور کونسلنگ سے وہ لو گ مستفید ہوئے تھے اُسی دور کا واقعہ ہے ایک بڑے قبیلے کا ملک ڈاکٹر رضا کے پا س آیا ڈاکٹر صاحب نے دوا تجویز کرنے سے پہلے ان کو سمجھا یا کہ تمہارا بلڈ پریشر معمول سے زیا دہ ہے تم کھا نے میں نمک کا استعمال نہ کرو، مریض نے کہا یہ تو بہت مشکل ہو گا ڈاکٹر صاحب بولے بلڈ پریشر تمہارا دشمن ہے پر ہیز کرنا ہو گا ملک نے کہا ڈاکٹر صاحب ایسے بہت دشمن میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں مگر میں دشمن سے ڈر نے والا نہیں ہوں ڈاکٹر ایس رضا کی رحلت سے پشاور کا ایک زرین دور ختم ہو گیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں