231

قصور کس کا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پروفیسر رفعت مظہر

آج پاکستان کی ہر جیل لاڈلے کی قدم بوسی کے لیے تیار بیٹھی ہے کیونکہ اُس کے کارہائے نمایاں ہی اتنے ہیں کہ گنتے گنتے زندگی کی شام ہو جائے۔ اُس نے“ریاستِ مدینہ“ کی تشکیل کا اعلان کیا اورحصولِ مقصد کے لیے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو حکومت میں ساجھی دار بنا لیا۔ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ضرورت اِس امر کی تھی کہ اُس کی راہ میں روڑے اٹکانے والی ملک دشمن اپوزیشن کو نیست ونابود کر دیا جائے۔ یہ کام فوج اور عدلیہ نے بطریقِ احسن سرانجام دیا۔ مرچ مصالحے کے لیے اُس کے پاس اہلِ صحافت کی فوج ظفر موج موجود تھی جو صبح ومسا اُس کی مدح سرائی میں مصروف رہتی تھی۔ اِسی بنا پر اُس کی باتوں کا رنگ بھی چوکھا ہوا۔ اگر کسی کے اندر عدل کے جرثومے کلبلائے بھی تو اُسے جسٹس شوکت عزیز صدیقی بنا دیا گیا تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ شنید ہے کہ یہ کارنامہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے سرانجام دیا۔ یہ طے ہونا ابھی باقی ہے کہ یہ کارنامہ سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ کے حکم پر سرانجام دیا گیا یا فیض حمید نے خود ہی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کی۔ لاڈلے کی راہوں کے کانٹے چننے کی پہلی کاوش تو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا کی تھی جس نے اکتوبر 2011ء میں مینارِ پاکستان لاہور پر لاڈلے کے لیے عظیم الشان جلسے کا اہتمام کیا۔ اِس جلسے کو ہم لاڈلے کی ”تقریبِ رونمائی“ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ اِس سے پہلے تو پرویز مشرف کے دَورِ آمریت میں وہ 2002ء کے عام انتخابات میں بمشکل اپنی ہی سیٹ نکال پایا تھا۔ یہ وہی دَور ہے جب لال حویلی والا کہا کرتا تھا ”اِس کے پاس تا تانگے کی سواریاں بھی نہیں۔
جنرل پاشا سے یہ وراثت سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام تک پہنچی جس کی ایماء پر ڈی چوک اسلام آباد میں 126 روزہ ناکام دھرنا ہوا۔ پھر جنرل قمر جاوید باجوہ نے ”لاڈلے“ کو گود لے لیا جنہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار المعروف ”بابا ڈیم“ کے ساتھ مل کر وزیرِاعظم نوازشریف کو ایک اقامے کی بنیاد پر گھر بھیجا۔ شاید سپریم کورٹ کے اِس معزز بنچ کو غصہ ہی بہت ہوگاکہ ایٹمی پاکستان کا وزیرِاعظم متحدہ عرب امارات سے اقامے کی بھیک کیوں مانگتا پھرے۔ قصہ مختصر یہ کہ بعد از خرابیئ بسیار ریاستِ مدینہ ”تشکیل“ پا گئی جس کے تحت نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں، بے گھروں کو 50 لاکھ گھر اور علم کی شمعیں روشن کر نے کے لیے گورنر ہاؤسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب اِن یونیورسٹیوں میں علم حاصل کرنے والے طلباء وطالبات لاڈلے کو دعائیں دیتے نظر آتے ہیں۔ ہرے بھرے پاکستان کے لیے خیبر پختونخوا میں 300 ڈیم بنانے کے علاوہ 10 ارب درخت بھی لگا دیئے گئے البتہ بابا ڈیم ”ہَتھ“ کر گیا۔ اُس نے ”بھاشا ڈیم فنڈ“ کے نام پر اربوں روپے اکٹھے کیے اور ڈکار گیا۔ دراصل اُسے غصّہ ہی بہت تھا کہ اگر جنرل باجوہ کو 3 سالہ توسیع مل سکتی ہے تو اُسے کیوں نہیں جبکہ لاڈلے کے سَر پر اقتدار کا ہُما بٹھانے کی تگ ودَو میں جتنا حصہ جنرل باجوہ کا تھا، اُتنا ہی اُس کا بھی تھا، پھر صرف جنرل باجوہ ہی کیوں؟۔
لاڈلے کے ساڑھے 3 سالہ دَورِ حکومت میں سادگی کا ایسا شعار اپنایا گیا کہ ملک مزید 20 ارب ڈالر کا مقروض ہوگیا۔ یہ کارنامہ لاڈلے کی 200 معاشی ماہرین کی ٹیم نے سرانجام دیا۔ اِس کے علاوہ لاڈلے نے پروٹوکال کا خاتمہ کیا۔ وہ روزانہ بَنی گالہ سے سائیکل پر پیڈل چلاتے ہوئے ہانپتا کانپتا ہوا دوپہر 12 بجے کے بعد وزیرِاعظم ہاؤس پہنچتا اور شام 5 بجے اُسی سائیکل پر واپس بَنی گالہ آتا۔ دشمن ”ایویں خوامخوا“ بے پَر کی اُڑاتے رہے کہ 12 بجے سے پہلے وہ اپنے حواس میں نہیں ہوتا۔ بندہ الزام تراشوں سے پوچھے کہ بنی گالہ سے وزیرِاعظم ہاؤس تک سائیکل پر سفر کیا منٹوں میں طے ہو جاتا ہوگا؟۔ الزام تراشیاں کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن کو سائیکل پر چڑھا کر بنی گالہ سے وزیرِاعظم ہاؤس تک کا سفر کروا کر دیکھ لیں کہ یہ کتنے گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، تب وہ خود ہی شرمندہ ہو جائیں گے۔ لاڈلا تو حسبِ وعدہ پٹرول 46 روپے فی لِٹر تک لے آتا اور 90 روپے کا ایک ڈالر بھی ملنے لگتا لیکن جنرل باجوہ نے ہی آنکھیں پھیر لیں۔ اختلافات کی یہ خلیج اتنی وسیع ہوئی کہ بقول جنرل باجوہ فروری 2021ء میں ہی فوج نے ملکی سیاست تیاگ کر غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ اِدھر جنرل باجوہ کا دستِ شفقت ہٹا اور اُدھر لاڈلے کی حکومت کا ”دھڑم تختہ“ ہوگیا۔ وہ لاڈلا جس کی 2011ء سے 2018ء تک تربیت ہی یہی کی گئی تھی کہ وہ ”شہنشاہِ معظم“ ہے اور سبھی اُس کے اشارہئ ابرو کے منتظر۔ اُسے بھلا یہ تبدیلی کیوں کر منظور ہوتی۔ اِسی لیے وہ ”دمادم مست قلندر“ کرتا ہوا سڑکوں پر نکل آیا۔ عقل سے پیدل اتحادی حکومت کو لاڈلے کا یہ کہا بھی یاد نہیں رہا کہ ”اگر مجھے نکالا گیا تو میں اور زیادہ ”خطرے ناک“ ہو جاؤں گا“۔ اِسی لیے اب اتحادی حکومت بھگت بھی رہی ہے۔ یاد آیا کہ جب جنرل باجوہ نے قدم پیچھے ہٹائے تو پھر بھی لاڈلے کو عدلیہ اور جنرل فیض حمید کی باقیات کی بھرپور مدد حاصل رہی۔ اُس کے خلاف کیسز بنتے رہے لیکن اُس کی شہنشاہیت نے کسی بھی عدالت میں حاضر ہونا گوارا نہ کیا۔ اُدھر عدلیہ کہ شفقتوں کا یہ عالم کہ ججز عدالتوں میں بیٹھے گھنٹوں بلکہ پہروں اُس کا انتظار کرتے اور پھر تھک ہار کر اگلی تاریخ دے دیتے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اتحادی حکومت چیخ اُٹھی ”لاڈلا ابھی تک لاڈلا ہی ہے“۔ اب مجبوراََ اتحادی حکومت نے بھی اعلیٰ عدلیہ سے ”مَتھا“ لگا لیا ہے۔ وہ کام جو اُسے بہت پہلے کردینا چاہیے تھا، اب کرنے کی ٹھان رہی ہے۔ اب تو بلاول زرداری نے بھی وزیرِاعظم سے کہہ دیاکہ جن پر اپریل 2022ء میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے تھا، وہ ایک سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک کیوں درج نہیں ہوا؟۔ مریم نواز بھی عدلیہ پر تیروں کی بوچھاڑ کر رہی ہے اور ملک کی پانچوں بار ایسوسی ایشنزبھی اتحادی حکومت کی پُشت پر کھڑی ہیں۔ یہ سب کچھ عدلیہ کا اپنا ہی کیا دھرا ہے جس نے پچھلے ایک سال میں لاڈلے کے عشق میں آئین کو RE-WRITE کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ایسے ہی فیصلوں سے نالاں سپریم کورٹ کے معزز جسٹس صاحبان کی قابلِ ذکر تعداد میں بھی ہلچل کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔ موجودہ حالات سے عیاں ہے کہ عنقریب عدلہ اور پارلیمنٹ کا جوڑ پڑنے والا ہے اور عام خیال یہی ہے کہ اِس بار جیت پارلیمنٹ کی ہوگی۔ وجہ یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی قابلِ ذکر تعداد آئین وقانون کے ساتھ ہے ”ہم خیال ججز گروپ“ کے ساتھ نہیں۔ تازہ ترین مثال پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے تعین پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے از خود نوٹس کی ہے۔ اُنہوں نے اپنی سربراہی میں 9 رکنی بنچ تشکیل دیا۔ عدالتی کارروائی کے پہلے ہی دن جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر شدید تنقید ہوئی۔ دوسرے دن چیف جسٹس صاحب نے 5 رکنی بنچ پر مشتمل نیا بنچ تشکیل دے دیا جس میں ہم خیال ججز اعجاز الاحسن اور مظاہر نقوی کے نام تو شامل نہیں تھے لیکن بغیر کسی وجہ کے جسٹس اطہرمِن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ چنانچہ 3/2 کی اکثریت سے وہی فیصلہ آیا جو ہم خیال ججز کی منشا تھی۔ اِس فیصلے پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے شدید اختلافی نوٹ سامنے آئے جن میں لکھا گیا کہ وہ جسٹس اطہرمِن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹس سے مکمل اختلاف کرتے ہیں۔ اِس لیے یہ فیصلہ 4/3 کی اکثریت سے مسترد کیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کی تاریخ تبدیل کرنے پر ایک دفعہ پھر چیف صاحب کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ تشکیل دیا گیا لیکن یہ بنچ بھی ٹوٹ گیااور پہلے جسٹس امین الدین خاں اور بعد ازاں جسٹس جمال مندوخیل نے مختلف وجوہات کی بنا پر بنچ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چیف صاحب حکومتی اتحاد اور بارایسوسی ایشنز کے مطالبے پر فُل کورٹ تشکیل دیتے لیکن حیرت انگیز طور پر اُنہوں نے 3 ججز پر مشتمل بنچ کے ساتھ ہی کارروائی شروع کر دی۔ اب 3 اپریل کو یہ بنچ دوبارہ بیٹھے گا جبکہ حکومت یہ اعلان کر چکی کہ فیصلہ خواہ کچھ بھی آئے اُسے منظور نہیں۔ اگر تصادم کی یہ فضاء برقراررہی تو نقصان کسی کا نہیں ہوگا سوائے ملک وقوم کے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں