464

سب جائز ہے۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

ہمارے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’’مخولیے‘‘ ہوتے جارہے ہیں ۔ اُنہوں نے ایڈیٹرز کے ساتھ گفتگومیں فرمایاکہ زمانہ طالب علمی میں اُنہوں نے ایک ’’دوست‘‘ سیاستدان کوکھیلتے ہوئے ہاکی ماری ، جولگی تواُن کے گال پرتھی لیکن اثر کہیں اور ہوا ۔ ہمیں معلوم ہے کہ سردارصاحب کااشارہ کِس کی طرف ہے اوراثر کہیں اور ہونے سے اُن کی مرادکیا ہے لیکن کیایہ زیادتی نہیں کہ پہلے تو’’دھاندلی‘‘ کے زورپر دوست سیاستدان کوایک نہیں دو ، دوبار شکست دی اوراب ’’مخول‘‘ بھی کررہے ہیں۔ کہے دیتے ہیں کہ سردارصاحب خواہ اُنہیں دَس باربھی شکست دے دیں وہ ہارماننے والے نہیں کیونکہ وہ خودجوان نہ سہی ، اُن کے حوصلے جوان ہیں اور دِل بھی ۔ ویسے بھی وہ بار بارکہہ چکے کہ ایسے دھاندلی زدہ الیکشن کو ’’وہ نہیں مانتے ، وہ نہیں جانتے ‘‘۔پارلیمنٹ میں اُن کاآنا تومحض ’’شرم وکشرمی‘‘ ہوتاہے اوروہ جب کبھی پارلیمنٹ میںآتے ہیں تو قائدِ ایوان کی کرسی دیکھ کر اُن کے سارے زخم ہرے ہوجاتے ہیں اور عالمِ غیض میں’’بولتی بند‘‘ ۔ اسی لیے وہ پارلیمنٹ سے باہرآکر آگ اگلتے ہیں۔ اب کی بارتو پیپلزپارٹی اُن کے ساتھ ’’ہَتھ‘‘ کرگئی ۔ ہوایوں کہ پارلیمنٹ سے باہر آکر سب سے پہلے مائیک قائدِ حزبِ اختلاف سیّدخورشید شاہ نے سنبھال لیا ، اُس کے بعداعتزاز احسن کی باری آگئی اورہمارے کپتان صاحب بیچارے ’’نُکرے‘‘ لگے ’’ٹُک ٹُک دیدم ، دَم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تصویر بنے رہے ۔
اب کپتان صاحب کی دُور رَس نگاہیں سردیوں میں الیکشن ہوتے دیکھ رہی ہیں گویالبِ بام محض دوچار ہاتھ کے فاصلے پرہی ہے ۔ ایسی ژرف نگاہی اورپیشین گوئیاں تو شیخ رشید کا خاصہ ہیں ۔ اسی لیے وہ پارلیمنٹ میں باربار آتے ہیں تاکہ نَووارد اورنَو آموز سیاستدانوں کو رموزِ سیاست پر لیکچر دے سکیں لیکن سردار ایازصادق ، شیخ صاحب کوبولنے کاموقع ہی نہیں دیتے اور اگروہ زبردستی بولنا بھی چاہیں تو اُن کامائیک بند کروادیا جاتاہے جس پر شیخ صاحب کے مُنہ سے پھول نہیں بددعائیں جھڑتی ہیں اور وہ بھی تھوک کے حساب سے ۔ اِس کے باوجودبھی سردار صاحب پر ’’کَکھ ‘‘ اثرنہیں ہوتا ، گویابقول حکیم مومن خاں مومن
اثر اُس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
سپیکرصاحب کواتناتو سوچنا چاہیے کہ یہ وہی شیخ صاحب ہیں جو 8 بار وزیررہ چکے ، جس کاوہ نہ صرف بَرملا اظہارکرتے ہیں بلکہ اُن کی تان بھی ہمیشہ اسی جملے پرٹوٹتی ہے ۔ ویسے عجیب بات ہے کہ شیخ صاحب جب بھی آٹھ بار وزارت کاذکر کرتے ہیں تو نہ جانے کیوں ہمیں پی ٹی وی کے ایک پرانے ڈرامے کاوہ مزاحیہ کرداریاد آجاتاہے جو بات بات پہ کہتاہے ’’دہ جماعت پاس ہوں ، ڈائریکٹ حولدارہوں ‘‘۔
خیربات ہو رہی تھی کپتان صاحب کی دوربیں نگاہوں کی ، تو ہوسکتا ہے کہ یہ فَن کپتان صاحب نے شیخ رشیدسے ہی سیکھاہو کیونکہ ایک مدت سے دونوں ’’ٹِچ بٹناں دی جوڑی‘‘ بنے نظرآتے ہیں اور اِس مسلمہ حقیقت سے تو مفر نہیں کہ
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با با�آ اِس لیے کپتان صاحب نے شیخ صاحب کاکچھ نہ کچھ اثرتو قبول کرناہی تھا ، حالانکہ وہ کسی کااثر کم کم ہی قبول کرتے ہیں ۔ اب چونکہ عقیل وفہیم خاں صاحب نے کہہ دیاہے کہ وہ سردیوں میں انتخابات ہوتے دیکھ رہے ہیں اِس لیے ہمیں بھی کچھ نہ کچھ تیاری توکرنی ہی ہوگی کہ سیاست کوتھوڑے بہت ’’ٹھونگے‘‘ ہم بھی مارتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے یہ ٹھونگے صرف کالموں تک ہی محدودہوتے ہیں کیونکہ ’’فی الحال‘‘ ہمارا رکنِ پارلیمنٹ بننے کاکوئی ارادہ نہیں ۔ ویسے اگرمدح سرائی ، کاسہ لیسی اور چاپلوسی سے پارلیمنٹ کے اندرتک رسائی ہوبھی جائے توبھی ہم اندرنہیں جاسکتے کیونکہ اندرجانے کے لیے بیوٹی پارلر والوں کو ہزاروں روپے روزانہ کانذرانہ کہاں سے دیں۔ اِس لیے فی الحال ہم نے اپنی اِس خواہش کولوریاں دے کرسُلایا ہواہے ۔ ویسے اگرکبھی ہماری بھی ’’آف شور‘‘ کمپنی بن گئی ، بھتہ خورگینگ کی سربراہی مِل گئی ،ٹیکس بچانے کے حربے آگئے ، کِک بیکس کے حصول میں طاق ہوگئے یاکم ازکم بینکوں سے قرضے لے کر’’ڈکارنے‘‘ کے قابل ہوگئے تو پھرہم بھی پارلیمنٹیرین بن کر’’رَج کے‘‘ اپناشوق پوراکریں گے ، ابھی آمدہ ’’سَرد انتخابات‘‘ پرتجزیوں اور تبصروں پر ہی صبرشکر کرلیتے ہیں۔
موجودہ حالات میں تویہی نظرآتا ہے کہ کپتان صاحب کے اعلان کردہ ’’سَرمائی انتخابات‘‘ میں پیپلزپارٹی اورتحریکِ انصاف مِل کرحصّہ لیں گی ۔ چَونکنے کی بجائے یہ ذہن میں رکھیں کہ جنگ اورمحبت میں سب جائزہے ۔ سیاست بھی اقتدارکی جنگ ہی توہوتی ہے اورپاکستان میں تو کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے ۔ اگرکپتان صاحب اورشیخ رشیدجو ماضی قریب (دَورِ مشرف) میں ایک دوسرے کے خلاف زہراگلتے اورغیر پارلیمانی جملے کَستے رہتے تھے ، وہ یَک جان دوقالب ہوسکتے ہیں تو پھرپیپلزپارٹی اورتحریکِ انصاف میں ’’مُک مکا‘‘ کیوں نہیں ہوسکتا؟۔
کپتان صاحب نے قوم کوسردیوں میں انتخابات کی جونوید سنائی ہے ، اُس کی وجہ شایداسحاق ڈارکی ’’بجٹی حرکات‘‘ ہوں کیونکہ اب یہ توسبھی جان چکے کہ بجٹ میں ڈارصاحب سے خیرکی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ اُن کاتو مِشن ہی یہی ہے کہ امیر ، امیرتَر اورغریب ، غریب تَر ہوتاچلا جائے ۔ تنخواہ دارطبقے سے اُن کی دشمنی اظہرمِن الشمس ہے ۔ موجودہ بجٹ میں بھی اُنہوں نے حاتم طائی کی قبرپر لات مارتے ہوئے تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصداضافے کااعلان کیاہے ۔ ہم اُنہیں چیلنج کرتے ہیں کہ وہ 14
ہزارمیں ماہانہ گھریلوبجٹ بناکر دکھائیں تو تب مانیں ۔ وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ ڈارصاحب اوراُن کے ماہرین کی پوری ٹیم جتنی بھی چاہے ٹامک ٹوئیاں مارلے ، ناکام ہوجائیں گے ۔ اسی لیے توہم کہتے ہیں کہ ویسے تومیاں نواز شریف کی حکومت کو’’سَتّے خیراں‘‘ ہیں لیکن اگرکبھی اُن کی حکومت کوکوئی خطرہ ہوا تو اُس کی وجہ اسحاق ڈارہی ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں