پچاس ہزار مستحق لوگوں کو سولر سسٹم کو بالکل مفت دئے جائیں گے جبکہ باقی 50 ہزار گھرانوں کو بغیر سود کے آسان اقساط پر دیئے جائیں گے۔ وزیر اعلی
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سردار علی امین خان گنڈاپور نے ہفتے کے روز ضلع مردان کا مختصر دورہ کیا جہاں انہوں نے پولیس لائنز کی نئی عمارت کے پہلے مرحلے کا افتتاح کیا۔ مردان پہنچنے پر انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات خان اور کمشنر مردان محمد ایاز اور دیگر اعلیٰ حکام نے وزیراعلیٰ کا استقبال کیا۔ پولیس کے چاق و چوبند دستے نے وزیر اعلیٰ کو سلامی دی۔صوبائی وزیر ظاہر شاہ طورو، ایم این اے علی محمد خان اور مردان کے دیگر منتخب عوامی نمائندے بھی اس موقع پر موجود تھے۔۔218 کنال رقبے پر محیط پولیس لائنز کی عمارت کا پہلا مرحلہ 395 ملین روپے کی لاگت سے مکمل کیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر پولیس لائنز میں ایڈمن بلاک، اسٹاف بیرکس، عملے کے لئے رہائش گاہیں اور دیگر تعمیرات شامل ہیں۔ افتتاحی تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی نے پولیس کے شہداءاور غازیوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے جوانوں نے امن و امان کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ہمیں پولیس جوانوں کی ان قربانیوں پر فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس فورس نے نامساعد حالات کے باوجود دہشتگردی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور کررہی ہے اور ہم پولیس جوانوں کی ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ امن و امان کو اپنی حکومت کی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت شروع دن سے پولیس کو مستحکم کرنے اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کررہی ہے، پولیس کے لئے گاڑیوں، ہتھیار اور دیگر آلات کی خریداری پر خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے، معاشی حالات جیسے بھی ہوں، پولیس کی ضروریات ترجیحی بنیادوں پر پوری کی جائیں گی۔ وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ پولیس شہداءپیکج سے متعلق معاملات کے لئے قانون سازی ہورہی ہے، صوبائی حکومت کی ہاؤسنگ اسکیموں میں دوران ڈیوٹی شہید ہونے والے پولیس سمیت دیگر تمام اداروں کے اہلکاروں کے ورثاءکو مفت پلاٹس دیئے جائیں گے اور پولیس شہداءکے ورثاءکو ان کے تمام حقوق دیئے جائیں گے۔ وزیر اعلی نے پولیس پر زور دیا کہ وہ عوام کے ساتھ اچھے رویئے اور اچھے برتاو کا مظاہرہ کرے اور عوام بھی پولیس سے تعاون کرے اور ٹریفک قوانین کی پاسداری کرے۔ انہوں ٹریفک پولیس سے کہا کہ وہ محنت کش لوگوں کا چالان کم سے کم کرے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر امیروں کو زیادہ سے زیادہ چالان کرے۔دریں اثناءوزیر اعلیٰ کو مردان کے ترقیاتی منصوبوں سے متعلق بریفنگ بھی دی گئی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت کی پالیسی ہے کہ جاری ترقیاتی منصوبوں کو پہلی ترجیح پر مکمل کیا جائے تاکہ یہ منصوبے جلد مکمل ہوں اور ان کا فائدہ بلاتاخیر عوم تک پہنچ سکے۔ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں پر عوام کا پیسہ لگتا ہے اس لئے اس کا دانشمندانہ استعمال ضروری ہے، ہم پیچھے چھوڑ آگے دوڑ والا کام نہیں کریں گے اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر عوام کو دھوکہ نہیں دیں گے اور ضرورت کی بنیاد پر تمام ترقیاتی کام کریں گے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں ترقیاتی پروگرام میں ایسے منصوبے بھی شامل کئے گئے جو سالہا سال سے چل رہے ہیں، لاگت بڑھتی جارہی ہے لیکن مکمل نہیں ہورہے، ہم نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کو حقیقت پسندانہ بنایا ہے جبکہ ماضی میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے نام پر صرف موٹی موٹی کتابیں چھاپی گئی ہیں، منصوبے کتابوں کی حد تک رہ گئے، ان پر عوام کا پیسہ خرچ ہوا لیکن عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا تعین کر لیا ہے اور چھ سو ترجیحی منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اسی سال کے آخر تک مکمل کئے جائیں گے۔ اس موقع پر وزیر اعلی نے ہر صوبائی حلقے کے لئے ایک ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس فنڈ کے تحت مقامی سطح پر ضرورت کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبے تجویز کئے جائیں،ان منصوبوں کے پی سی ونز، ٹینڈرز سمیت تمام پراسز مقامی سطح پر کئے جائیں گے اور اس مقصد کے لئے ترقیاتی منصوبوں سے متعلق اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کیا گیا ہے تاکہ یہ منصوبے بروقت شروع اور جلد مکمل ہوسکیں۔ وزیر اعلی نے چلڈرن ہسپتال اور ڈی ایچ کیو ہسپتال مردان کے باقی ماندہ کاموں کی تکمیل کے لئے درکار فنڈز فوری طور پر فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے انتظامیہ کو مقررہ مدت میں ان کاموں کی تکمیل اور ان ہسپتالوں کی فعالیت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ بعد ازاں میڈیا کے نمائندوں سے اپنی گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلی نے کہا کہ گذشتہ روز صوبائی ایپکس کمیٹی کے دوسرے اجلاس میں جو بھی چیزیں منظور ہوئی ہیں وہ تمام اداروں کی موجودگی میں متفقہ طور پر منظور ہوئی ہیں، اس اجلاس میں جو بھی فیصلے ہوئے ہیں اور جو بھی پالیسی بنی ہے اس پر من و عن عملدرآمد ہوگا، اور عملدرآمد شروع بھی ہوگیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس کو مستحکم کرنے، امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے، اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے ایپکس کمیٹی کے پہلے اجلاس ہی میں فیصلے ہوئے تھے، ان فیصلوں پر عملدرآمد جاری ہے جس کو مزید تیز کرنا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اندر سے کچھ اور باہر سے اور کچھ اور وفاقی حکومت میں بیٹھے لوگوں کا وطیرہ رہا ہے، ہمارے لیڈر اور ہماری پارٹی کا کردار اور ماضی سب کے سامنے ہے، ہم نے کھبی بھی اقتدار کے لئے سیاست نہیں کی جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے انتخابات کروانے کے لئے دو صوبوں میں اپنی حکومت چھوڑ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین کی پاسداری کی ہے اور ان لوگوں نے آئین شکنی کی ہے،آج ملک میں امن وامان اور معیشت سمیت جو حالات بنے ہیں وہ ان لوگوں کی حکومت میں بنے ہیں،جب ہم نے حکومت چھوڑی تو ملک میں کیا حالات تھے اور آج کیا حالات ہیں، جب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو ملک درست سمت میں چل رہا تھا، یہ لوگ نا اہل، نکمے اور منحوس ہیں جس چیز کو بھی ہاتھ لگاتے ہیں وہ تباہ ہوجاتی ہے، میری اداروں سے گزارش ہے کہ ان سے خود کو الگ رکھیں، ان کی نحوست کا اثر آپ پر بھی پڑ رہا ہے،لوگ آپ سے گلہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو آپ لے آئے ہیں۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلی کا کہنا تھا ہم نے ایک ٹیکس فری اور فلاحی بجٹ دیا ہے، بجٹ میں غریبوں پر بوجھ کم کیا ہے اور بجٹ میں مختلف فلاحی کاموں کے لئے 12 ارب روپے رکھے ہیں۔ دیگر منصوبوں کے علاوہ نوجوانوں کی خود روزگاری کے لئے بلاسود قرضے دے رہے ہیں، 14 اگست کو اس پروگرام کا اجراءکیا جا رہا ہے، ہم ایک لاکھ لوگوں کو سولر سسٹم دے رہے ہیں۔جس میں سے50 ہزار مستحق لوگوں کو سولر سسٹم کو بالکل مفت دئے جائیں گے جبکہ باقی 50 ہزار گھرانوں کو بغیر سود کے آسان اقساط پر دیئے جائیں گے۔ وزیر اعلی نے مزید کہا کہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے، یونیورسٹی بننا ضروری ہے لیکن اس جگہ بننا ہے جہاں اس کی ضرورت ہو، ماضی میں بغیر منصوبہ بندی اور سوچ سمجھ کے تمام کیمپسز کو یونیورسٹیوں کا درجہ دیا گیا، پھر ان یونیورسٹیوں میں ضرورت سے زیادہ لوگ بھرتی کئے گئے ہیں،جس کی وجہ سے زیادہ تر یونیورسٹیاں خسارے میں ہیں اور حکومت پر اربوں روپے کے بقایا جات کا بوجھ پڑا ہوا ہے، یونیورسٹیوں کے قیام کے معاملے پر کام سے زیادہ ناموں پر توجہ دی گئی اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر اپنے بڑوں کے نام لگائے گئے، دوسری طرف ان یونیورسٹیوں کے لئے ضرورت سے زیادہ زمینیں بھی خریدی گئیں جس سے خزانے پر بقایاجات کامزید بوجھ پڑ گیا۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ اس طرح کے بقایاجات نہ صرف یونیورسٹیوں میں ہیں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی ہیں اور ہم آہستہ آہستہ ان بقایا جات کی ادائیگی کر رہے ہیں، ہم صحت کارڈ، تدریسی ہسپتالوں، ٹی ایم ایز، ڈبلیو ایس ایس سیز سمیت تمام اداروں کے بقایا جات ختم کر رہے ہیں،ہمیں اس طرح کے بہت سارے چیلینجز ہیں لیکن ہم ان چیلنجز سے نکلیں گے۔