خواتین کا صفحہمضامین

ایک اور بغاوت کی کوشش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پروفیسررفعت مظہر

پاک فوج کے خلاف 9مئی 2023ء کوایک ناکام بغاوت ہوئی۔ افواجِ پاکستان کے لگ بھگ 200 مقامات پرشرپسند حملہ آور ہوئے لیکن پاک فوج نے صبرکا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور یوں عمران خاں کا لاشیں اُٹھاکر لاشیں لانے کا منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا۔ پھر عدلیہ کاآغوش واہوا اور 9مئی کے ملزمان کو جائے پناہ مِل گئی۔ دھڑادھڑ ضمانتیں ہوئیں اور رہائیاں بھی عمل میں آئیں۔ یہی نہیں بلکہ ”بندیالی کورٹ“ نے تو آئین کو Rewrite کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ایک سال چارماہ گزر چکے لیکن کس کی مجال جواِن ملزمان کی طرف آنکھ اُٹھاکر بھی دیکھ سکے۔ صرف آرمی ایکٹ کے تحت 85 ملزان موجود لیکن وہ بھی بندیالی کورٹ کے حکمِ امتناعی کی پناہ میں۔ گویا شرپسندوں کویہ پیغام دیا گیاکہ وہ جو مَن میں آئے کریں، کس میں دَم ہے جواُن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
یہی حوصلہ اب ایک اور بغاوت کے تانے بانے بُن رہاہے اور فضاؤں میں 9مئی ٹوکی سرگوشیاں جنم لے رہی ہیں۔ وہ علی امین گنڈاپور، جس کے ایک ایس ایچ او نے بال کاٹ دیئے تھے اب کھُلی دھمکیوں پراُتر آیاہے۔ 8ستمبر کو سنگھجانی کے جلسے میں ”شہد“ کے زیرِاثر واہی تباہی بکتے ہوئے اُس نے حکمرانوں کوحکم دیاکہ وہ 15دنوں کے اندر عمران خاں کو رہا کردیں وگرنہ وہ خود بزورِطاقت رہا کروا لے گا۔ اُس نے 15دنوں بعد خیبرپختونخو کالشکر لے کر پنجاب پر حملہ آور ہونے کی دھمکی بھی دی۔ اُس نے صحافیوں، خصوصاََ خواتین کے بارے میں انتہائی بیہودہ الفاظ کہے جس پر صحافیوں نے اعلان کردیا کہ جب تک گنڈاپور معافی نہیں مانگتا وہ تحریکِ انصاف کیے رَہنماؤں کی پریس کانفرنسز کا بائیکاٹ کریں گے۔ 13ستمبر کو تحریکِ انصاف کے رَہنماؤں، سلمان اکرم راجہ، شبلی فراز اور رؤف حسن کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کیاگیا اور اُن کے سامنے سے مائیک اُٹھا لیے گئے۔ اِس پر سلمان اکرم راجہ نے صحافیوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اُن کی ایک ہی ضد تھی کہ جب تک علی امین گنڈاپور معافی نہیں مانگے گا، بائیکاٹ جاری رہے گاااُدھر گنڈاپور اپنی ضِد پر قائم۔
اِسی تقریر میں گنڈاپور نے پاک فوج کے بارے میں جو مُنہ میں آیا بَک دیا۔ گنڈاپور کی سنگھجانی میں کی گئی تقریر کے رَدِعمل میں 9ستمبر کی رات کو پارلیمنٹ کی حدودسے تحریکِ انصاف کے 8 پارلیمنٹیرینز گرفتار کرلیے گئے جس پر پارلیمنٹ کے تقدس کومجروع کرنے کاشور اُٹھا۔ علی محمدخاں نے اِسے پارلیمنٹ کا 9مئی قرار دیا اور لطیف کھوسہ نے اِسے سیاہ دن قرار دیتے ہوئے جمہوریت پرشَب خون مارنے اور آئین کی تضحیک کہا۔ یہ بجاکہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور مقدس بھی کیونکہ یہاں آئین سازی ہوتی ہے۔ سوال مگریہ ہے کہ اِس رسمِ بَدکا بانی کون؟۔ کیا پارلیمنٹ 2014ء کے دھرنے میں مقدس نہیں تھی جب اُس کے گیٹ توڑے گئے، دیواروں پرپوتڑے لٹکائے گئے، راستے بند کردیئے گئے۔ کیا آئین اُس وقت معطل تھاجب وزیرِاعظم ہاؤس پرحملہ کیاگیا، پی ٹی وی پرقبضہ کیا گیا، تھانے پرحملہ کرکے اپنے پیروکار چھڑوائے گئے، یوٹیلیٹی بلز سرِعام جلائے گئے، بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کوہُنڈی کے ذریعے رقوم بھیجنے کاکہاگیا اور سول نافرمانی کااعلان ہوا۔ کیا قوم کاحافظہ اتناہی کمزور ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمدمزاری پر قاتلانہ حملے کوبھول جائیں؟۔ یہ عین اُس وقت ہواجب دوست محمدمزاری پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ اُس وقت تحریکِ انصاف کے موجودہ صدر چودھری پرویزالٰہی نے گجرات سے غنڈے منگوائے جنہوں نے ڈپٹی سپیکرپر حملہ کیا۔ آج بھی چودھری پرویزالٰہی کی اُن غنڈوں کو ہدایات دینے کی وڈیوز موجود ہیں۔ حقیقت یہی کہ یہ مکروہ رسم اورگالی گلوچ کابیانیہ تحریکِ انصاف کے بانی کاپیدا کردہ ہے کیونکہ اُن کے نزدیک وہی ”سکندر“ جوگالی گلوچ میں یَدِطولیٰ رکھتا ہو۔ گنڈاپور کے 8ستمبر کے جلسے کی تقریرپر بھی بانی نے یہی کہا ”اُس نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے“۔ جب صحافیوں نے یہ سوال اُٹھایاکہ تحریکِ انصاف کے کچھ رَہنماء تو گنڈاپور کی اِس تقریرپر معذرت خواہ ہیں تب بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا ”وہ بزدل ہیں اُنہیں پارٹی میں رہنے کاکوئی حق نہیں“۔ عمران خاں کے اِس بیان کے بعد سارے معذرت خواہانہ رویے بدل گئے اور باجماعت کہاجانے لگاکہ گنڈاپور نے جوکچھ کہا، درست کہا۔
2دن خاموش رہنے کے بعد علی امین گنڈاپور نے خیبرپختونخوا کے وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے ایک نئے تنازعے کوجنم دیاہے۔ اُس نے کہا ”تم اپنی پالیسی اپنے گھر رکھو، اپنے صوبے کے عوام کی زندگیاں بچانا میرافرض ہے، میں افغانستان میں وفد بھیجوں گااور افغانستان کے ساتھ بیٹھ کربات کروں گا اور مسئلہ حل کروں گا“۔ سادہ الفاظ میں گنڈاپور نے بغاوت کااعلان کردیا ہے جس پر سنگین غداری کاآرٹیکل 6لگتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم میں مرکز نے صوبوں کودیگر تمام حقوق تودیئے مگر خارجہ امور، دفاع اور کرنسی کاحق اپنے پاس رکھا۔ اگریہ حقوق بھی صوبوں کو دے دیئے جائیں توپھر مرکزکی کوئی حیثیت نہیں رہتی اور صوبے اپنی الگ شناخت کے ساتھ الگ ممالک میں ڈھل جائیں گے۔ وزیرِدفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”گنڈاپور کی جانب سے افغانستان سے خود مذاکرات کااعلان وفاق پرحملہ ہے۔ کوئی صوبہ کسی ملک سے براہِ راست مذاکرات نہیں کرسکتا۔ جس راستے پر گنڈاپور اوراُس کے لوگ چل رہے ہیں وہ ملک کے لیے زہرِقاتل ہے“۔ بانی پی ٹی آئی نے گنڈاپور کے اِس بیان کوبھی درست قرار دیا۔ جب اُن سے سوال کیاگیا کہ وفاقی حکومت اور دفترِخارجہ کے ہوتے ہوئے صوبائی حکومت کیسے دوسرے ملک سے براہِ راست بات کرسکتی ہے توعمران خاں نے جواب دیا ”دفترِخارجہ کو چھوڑو خیبرپختونخوا دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ بلاول بھٹو جب وزیرِخارجہ تھے تووہ افغانستان تک نہیں گئے؟“۔ ایک طرف توعمران خاں خودہی تسلیم کررہے ہیں کہ بلاول بطور وزیرِخارجہ افغانستان گئے تھے جبکہ دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں ”دفترِخارجہ“ کو چھوڑو۔ گویاوہ دفترِخارجہ کو پرکاہ برابرحیثیت دینے کوبھی تیار نہیں اور خارجہ اموربھی خودہی طے کرنے پرزور دے رہے ہیں۔ عمران خاں شایدیہ بھول گئے کہ وہ دہشت گردی کایہ عفریت خودہی افغانستان سے لائے
ہیں۔ اُنہی کی ایماء اور فیض حمیدکے فیض سے 40ہزار دہشت گردوں کو ”اپنے لوگ“ قرار دے کر افغانستان سے پاکستان میں لاکر بسایا گیا جس کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔ وہ تحریکِ طالبان پاکستان جس کے دہشت گردوں کا پاکستان سے مکمل طورپر صفایا کیاجا چکاتھا اب پھر فعال ہوچکی۔ شنید ہے کہ خیبرپختونخوا میں ٹی ٹی پی کی بھتہ خوری عروج پرہے اور خیبرپختونخوا کے وزراء تک بھتہ دے کر جان کی امان پارہے ہیں۔ اب عمران خاں کا خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا واویلا کچھ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ ”خود کردہ را علاجے نیست“۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button