داد بیداد۔۔۔اعتماد کا فقدان۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
80سال کے ایک نیم خواندہ تاجر مقامی پریس کلب میں کسی سے ملنے آئے، دوستوں نے بزرگ کو باتوں میں لگایا ان کی باتیں بڑے بڑے دانشوروں سے زیادہ دلچسپ تھیں ان کے مشاہدات اورتجربات میں معلومات کاخزانہ نظر آتاتھا،جب وہ آئے تھے ہم موجودہ سیاسی صورت حال اور اس میں تازہ ترین بیانات پر رائے زنی کررہے تھے ہماری باتیں سن کر انہوں نے بڑے پتے کی ایک بات کہی اُس نے کہا ”چوہے بلی کا کھیل ہے“ پھر انہوں نے جو کچھ کہا وہ لکھا نہیں جاسکتا، ہم نے بات کا رخ ملک کو درپیش مسائل کی طرف موڑدیا اُس نے کہا اعتماد کا فقدان پہلا مسلہ ہے یہ مسلہ حل ہواتو سارے مسائل حل ہو جائینگے ہم نے کہا اعتماد کو کیا ہوا؟ اُس نے کہا 1961کا زمانہ مجھے یاد ہے میں کپڑے کے بڑے کارخانے میں مزدوری کرتاتھا کراچی کو غریب پرور شہر کہا جاتا تھا ہم 5مزدور ایک کمرے میں رہتے تھے، ہمارے ایک ساتھی کے پاس ٹرنسسٹر ریڈیو تھا صدر جب ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتا توہم بڑے شوق سے اس کی انگریزی تقریر سنتے جو 6سے 7منٹ کی مختصر تقریر ہوتی تھی اور سال میں ایک یا دو بار ہوتی تھی اُس کی ہر بات پر ہم کو یقین ہوتا تھا ہم ان کی باتیں تر جمہ آنے کے بعد سمجھتے تھے اور اگلے روز دوسروں کو بتاتے تو وہ بھی پوری یقین کے ساتھ دلچسپی لیکر سنتے تھے، یہ اعتماد تھا، چند سال بعد میں نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا تجارت میں ہم سالانہ بجٹ کو دیکھتے تھے، کونسی چیز سستی ہوگی کونسی چیز مہنگی ہوگی بجٹ کو دیکھ کر ہم جواندازہ لگاتے وہ سال بھر ایساہی ہوتا تھا اس میں انیس بیس کافرق نہیں ہوتا تھا بجٹ پر تاجروں کو اعتماد تھا، سال میں ایک آدھ بار ہمارے بازار میں کوئی مسلہ ہوتا تو بازار کے چوہدری کو کسی ممبر یا افیسر سے ملنے کے لئے بھیجتے تھے، ممبر یا افیسر جو کچھ کہتا تھا ایسا ہی ہو جاتا تھا ہم کو اس کی بات پر پورا پورااعتماد تھا چونگی، محصول، ٹیکس اور دیگر چھوٹے موٹے مسائل کے لئے بازار کا چودھری ایک درخواست بھیجتا تھا دوسرے دن اس درخواست پر غور ہو جاتا تھا، دفتر پر ہمارا پورا اعتماد تھا آج میرے بیٹے اور پوتے کاروبار کر تے ہیں مجھے حیرت ہوتی ہے آج بازار میں شٹر ڈاون ہڑتال کے بغیر کوئی معمولی مسلہ بھی حل نہیں ہوتا،دیہاتیوں، کسانوں، مزدوروں، سرکاری ملازمین کا بھی ایسا ہی حال نظر آتاہے وہ بھی اپنے مطالبات کے لئے جلو س، جلسہ، ریلی اور بھوک ہڑتال کر تے ہیں تو مسلہ حل ہو جاتا ہے اس کے بغیر ان کی بات کوئی نہیں سنتا بزرگ رخصت ہوا تو گفتگو کا رخ ہم نے اعتماد کے فقدان کی طرف موڑدیا اور اخباری روایت کے مطابق ”فلیش بیک“ کر کے ماضی میں جھانکنے کی کوشش کی تو 1980کا عشرہ نظر آیا جو اعتماد ٹوٹنے کا پہلا عشرہ تھا کراچی میں تباہی اور بربادی اُس دور میں آئی، وزیر ستان میں دہشت گردی اُس زمانے میں لائی گئی ایک آگ جنوب کی طرف سے پھیلنے لگی دوسری آگ شمال کی طرف سے ملک کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی، عوام اور حکام میں بداعتمادی پیداہوئی، دونوں ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے بداعتمادی کی یہ وبا سیاستدانوں تک پھیل گئی سیاست دانوں پرعوام کا اعتماد ختم ہوا پھر بداعتمادی نے عدلیہ کو اپنے لپیٹ میں لے لیا خودکش جیکٹ کے ساتھ مجرم پکڑے جاتے تھے چند دنوں کے بعد باعزت بری کئے جاتے تھے، لوگ سوچنے لگے ہمارا دشمن رنگے ہاتھوں پکڑا گیا پھر کس طرح بری ہوگیا؟ آہستہ آہستہ بداعتمادی کی یہ لہر دوسرے قومی اداروں تک پھیل گئی الغرض کسی کو کسی پراعتماد نہیں رہا، 1961میں صدر 6منٹ تقریر کرتا تھا تو لوگ مان لیتے تھے آج کا حکمران گھنٹہ، سوا گھنٹہ بولتا ہے مگر مانتا کوئی نہیں ایک ٹرانسسٹر کی جگہ سینکڑوں ٹیلی وژن چینل حکمران کی تقریر دکھاتے ہیں مگر لوگ چینل بدل کرنیشنل جیو گرافک یا ڈسکو ری دیکھنا پسند کرتے ہیں حکمران کی باتوں میں عوام کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے ہم نے مانایہ اعتماد کا فقدان ہے سب سے پہلے اعتماد کے فقدان سے نجات پانے کی ضرورت ہے۔