داد بیداد…فلسطینی بچوں کے لئے…ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

فلسطینی بچوں کی مظلومیت نے دنیا بھر سے یہودیوں کے سوا تما م مذاہب کے لو گوں کی توجہ حاصل کرلی ہے ایک تصویر ذرائع ابلاغ میں گردش کررہی ہے جس میں ایک فلسطینی بچہ مکان کے ملبے میں پھنسا ہو ہے اور کتا اس کے پاس آکر مزید ملبہ گرنے کے چوٹوں سے اس کی حفاظت کررہا ہے گویا یہودی انسانوں سے کتا بھی زیادہ رحمدل ہوتا ہے، فلسطینی بچوں کے ساتھ دنیا بھر کے انسان دوست اور منصف مزاج لوگ ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں بھارتی ادیبہ اور دانشور اروندھتی رائے نے بر طانیہ میں پین پنٹر (PEN Pinter) نامی مشہور ایوارڈ میں سے نصف رقم فلسطینی بچوں کی امداد کے لئے قائم فنڈ کو دینے کا اعلان کیا ہے پین پینٹر ایوارڈ 2009سے ہر سال کسی ایسے ادیب کو دیا جاتا ہے جس کا تعلق دولت مشترکہ کے ممبر ملکوں میں سے کسی ملک سے ہو، اور جس نے انسانی حقوق اور ازادی اظہار کے لئے اپنے قلم کے ذریعے نمایاں خدمت انجام دی ہو اور مظلوم لوگوں کی غیر متنزل لزل حمایت کی ہو، ایوارڈ وصول کرنے کی تقریب برٹش لائبریری لندن میں منعقد ہوئی، اروندھتی رائے نے اس انعام کی نصف رقم مصری بلا گر اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے نوجوان علاء عبد الفتح کو دینے کا اعلان کیا جو برطانوی شہری بھی ہے اور اس وقت مصر میں قید تنہائی کی سزا کاٹ رہا ہے اس موقع پر اروندھتی رائے نے جو تقریر کی وہ انگریزی کا خوب صورت نثر پارہ ہونے کے ساتھ ساتھ مصنفہ کی جرء ت اظہار کی مثال بھی ہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس تقریر کو بار بار شائع اور نشرکیا جارہا ہے یہ تقریر سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو چکی ہے تقریر میں کئی باتیں اور بھی ہیں جو قابل ذکر ہیں مصنفہ نے اپنی تقریر کے آغاز میں غیر متزلزل کے لفظ کو آڑے ہاتھوں لیا انہوں نے کہا Unflinchingکا لفظ مجھے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا جب بھی سوچتی ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی کمزوروں پر ظلم ہوتا ہے ظالموں کو امریکہ کی Unflinchingیا غیر متزلزل حما یت اور اشیر باد حاصل ہوتی ہے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی ایک سال سے جاری ہے اور اسرائیل کو امریکہ اپنی Unflinchingیا غیر متزلزل مدد کا یقین دلاتا رہتا ہے اس لئے یہ لفظ مجھے بے قرار کرتا ہے جب میرے قلم اور میری کتاب کے ساتھ اس لفظ کا استعمال کیا گیا تو میں ایک بار پھر بے چین ہو گئی مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ لفظ پہلے ہی ”بے ابرو“ہو چکا ہے اپنی انتہا ئی اہم تقریر میں اروند ھتی رائے اپنے ملک بھارت میں قیدو بند کی صعوبتوں سے دوچارہونے والے سیاسی اور سماجی کارکنوں کو نہ بھول سکی،ان میں عیسائی اور ہندو کم ہیں مسلمان زیادہ ہیں اور مسلمانوں میں کشمیری بھی ہیں انہوں نے جوش خطابت میں کہاکہ میں علاء عبد الفتح کو یہاں اس ہال میں موجود پاتی ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ ان کاچہرہ میرے سامنے ہے میں اسی طرح بھارت میں قید کاٹنے والے بے گناہ کارکنوں کو بھی یہاں اپنے سامنے موجود پا تی ہوں میں دیکھتی ہوں کہ سریندرہ گیڈ لنگ بھی یہاں موجود ہے مہیش راوت بھی مو جود ہے خرم پرو یز، عمر خالد، گل قستہ فاطمہ، خالد سیفی، روناولسن، شر جیل امام اور عرفان معراج بھی یہاں موجود ہیں میں آج اپنا اعزاز ان سب کے نام کرتی ہوں خاص فلسطینی بچوں کے نام کرتی ہوں یہ بہت بڑی بات ہے کہ آج کے پُر آشوب دور میں پوری دنیا کے انصاف پسند اور معتدل مزاج لوگ مظلوم فلسطینیوں کے دُکھ درد کو سمجھتے ہیں اور حما س کی جدو جہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اگر چہ اسلا می ممالک کی طرف سے غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ ہمدردی کاجذبہ نظر نہیں آتا، شکر کا مقام یہ ہے کہ بھارت، فرانس، جر منی، برازیل، روس اور چین سمیت کئی ممالک نے غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے ”گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ دربطحا“ کہہ کر شاعر نے اس کی گویا پیش گوئی کی تھی جو سچ ثابت ہو رہی ہے ابھی اور بھی بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا علا مہ اقبال نے یہ بھی تو کہا تھا ”پا سبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے“