داد بیداد۔۔کلام اقبال میں مسلم سپین۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

علا مہ اقبال نے یورپ کا پہلا سفر 1905ء میں کیا انہوں نے انگلینڈ اور جرمنی مین فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اس کے بعد1933ء میںیورپ کے دورے پر تشریف لے گئے تو مسلم سپین کی تاریخ کاچشم دید جائزہ لینے کے لئے سپین کے دو صوبوں غرناطہ اور قرطبہ کاخصوصی دورہ کیا آپ کے فارسی اور اردو کلام میں اس دورے کے تاثرات نظر آتے ہیں بلکہ مسلمانوں کے دلوں کو گرماتے ہیں قرطبہ میں بنو امیہ کی خلافت 755عیسوی سے1258ء تک رہی غرناطہ میں اسلامی حکومت 711عیسوی سے 1492ء تک رہی قرطبہ کا حکمران خلیفہ کہلاتا تھا غرناطہ کے حکمران کو سلطان کہتے تھے، عربوں کی تاریخ میں مسلم سپین کو ہسپانیہ اور اندلس کہا جاتا ہے، علامہ اقبال نے بھی یہی دونام باربار استعمال کئے مسلمان خلفاء اور سلاطین میں خلیفہ عبد الرحمن اول کو علامہ اقبال کی پسندیدہ شخصیت کادرجہ حاصل ہے،ان کی بہادری،اولوالعزمی اور علم دوستی میں علامہ اقبال کے فلسفہ خودی اورمثالی انسان مرد مومن کی صفات عالیہ کی جھلک ملتی ہے مسلم سپین کی تاریخ اور سماج میں علامہ اقبال کی دلچسپی کے تین پہلو تھے وہ بچشم خود دیکھنا چاہتے تھے کہ عرب میں مسلمانوں کی عظیم طاقت یعنی خلا فت بنو امیہ نے کس طرح مشرق میں سندھ اور ماروراء النہر تک فتوھات کے جھنڈے گاڑے اور کس شان سے امو یوں نے مغرب میں مراکش سے سپین تک اپنی طاقت کی دھاک بٹھادی یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے جنہیں تو نے بخشاہے ذوق خدائی دو نیم ان کی ٹھو کر سے صحرا و دریاسمٹ کر پہاڑان کی ہمت سے رائی دوسرے بات یہ تھی کہ علامہ اقبال یو رپ میں مسلمانوں کے ذوق جما لیات اور فنون لطیفہ میں ان کے کمالات کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے، تیسری بات یہ تھی کہ آٹھویں صدی سے پندرھویں صدی تک یو رپ کی تاریخ کو تاریک دور (Dark age) کہا جاتاہے اس دور میں بنوامیہ نے علوم و فنون میں جو ترقی کی تھی، اس کا مشاہدہ کرکے علم و ادب کے موتیوں کو چُننا چاہتے تھے بال جبریل میں مسلم سپین کے حوالے سے جو نظمیں آئی ہیں وہ شاعر کے خیالات و جذبات کی عکاسی کرتی ہیں طارق کی دعا اس شعرپرختم ہوتی ہے عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہ مسلمان کو تلوارکر دے ایک اور نظم ہے جس کا تعلق قرطبہ کی ریاست کے زوال اور خلیفہ کی شکست کے بعد پایہ زنجیر ہوکر زند ان کے حوالے ہونے سے ہے آخری خلیفہ معتمد شاعر بھی تھا عالم بھی، ان کی عر بی نظمیں انگریزی میں ترجمہ ہو کر ”وز ڈم آف دی ایسٹ“ میں شائع ہوچکی تھیں ایک شعر کو اردو کے قالب میں ڈھال کر الفاظ کاجامہ یوں پہنایاہے جو میری تیغ دو دم تھی اب میری زنجیر ہے شوخ و بے پروا ہے کتنا خالق تقدیر بھی ایک شہرہ آفاق نظم وہ ہے جو خلیفہ عبدالرحمن اول کے اشعار کا آزاد ترجمہ ہے یہ اشعارانہوں نے اندلس میں کھجور کاپہلا درخت لگاتے ہوئے کہے تھے کھجور کے اس درخت کو مخاطب کرکے شاعرکہتا ہے مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا صحرائے عرب کی حور ہے تو پردیس میں ناصبور ہوں میں پردیس میں ناصبور ہے تو دورہ ہسپانیہ کے حوالے سے علامہ اقبال کی جو شہکار نظم سب سے زیادہ مشہور ہوئی اس کا عنواں ہے ”مسجد قرطبہ“ 65اشعار پر مشتمل یہ نظم مسلمانوں کے درخشان ماضی کی یاد دلانے کے ساتھ زندگی اور موت،عروج اور زوال کے رازوں سے بھی پردہ اٹھاتی ہے شاعر کہتا ہے سلسلہ روزشب نقش گر حادثات سلسلہ روز شب اصل حیات و ممات، صورت شمشیر ہے دست قضامیں وہ قوم کرتی ہے جوہر زماں اپنے عمل کاحساب کلام اقبال میں مسلم سپین کے ماضی اور حال کی جو جھلک ملتی ہے اس میں غرناطہ کے الحمرا محل کی عظمت، مسجد قرطبہ کی شان و شوکت، مدینہ الزہرا کے محلات اور باغات کی قدامت قاری کو مسحور کر دیتی ہیں مسجد قرطبہ کو چرچ بنانے کے بعد اس میں کسی مسلمان کو نماز کی اجازت نہ ملی، یہ بات علامہ اقبال کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے چرچ کے بڑے پا دری سے کہا کہ عیسائی پادریوں کا وفد جب ہمارے نبی کریم ﷺ سے ملنے مسجد نبوی مدینہ منورہ آیا تو ہمارے پیغمبر نے ان کو مسجد کے اندر عبادت کی غیر مشروط اجازت دے دی آپ مجھے دو رکعت نماز کی اجا زت کیوں نہیں دیتے؟ کون ساخوف ہے جو آپ کو روکتا ہے؟ اس پر پادری نے علامہ اقبال کو نماز پڑھنے کی اجازت دیدی، علامہ اقبال نے مسلم سپین کا جو دورہ کیا وہ ہر لحاظ سے تاریخ میں امر ہوگیا ہسپانیہ کو الوداع کہتے ہوئے آپ نے کہا ؎
ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امین ہے
مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تیری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تیری باد سحر میں