داد بیداد۔۔توسیع شہر۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

پشاور کے شہر نے گذشتہ ڈیڑھ سو سالوں میں فصیل سے باہر توسیع شہر کے کئی مراحل دیکھے اور ہر مرحلے نے شہر کو نیا روپ دیدیا لاہور، ملتان اور دہلی جیسے قدیم شہروں میں فصیل شہر کے اندر ہرابادی کو ”والڈ سٹی“ فصیل والے شہر کا نام دیا جاتا ہے یورپ کا سفر کرنے والوں کو پتہ ہے کہ وہاں بھی فلورینس کی طرح کئی قدیم شہروں میں فصیلیں ہوا کرتی تھیں دروازے ہوا کرتے تھے بعض شہروں میں دونوں کی نشانیاں اب بھی ملتی ہیں فلورینس کی فصیل کا چھوٹا ساحصہ نظر آتا ہے دو دروازے بھی سلامت ہیں لاہور کی فصیل اور اس کے تاریخی دروازوں کی بحالی کا کام گذشتہ 30سالوں سے یونیسکو (UNESCO) اور آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت کے تعاون سے جاری ہے شاہی حمام اور مسجد وزیر خان کی بحالی کا کام مکمل ہوا ہے پشاور کی فصیل جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ناپید ہوچکی ہے چند دروازے اب بھی موجود ہیں گذشتہ دو سالوں میں قصہ خوانی بازار کی بحالی اور تزین وارائش پر اچھا کام ہوا ہے فصیل شہر کے اندر قصہ خوانی کی طرح دلچسپ اورتاریخی ناموں سے موسوم کئی تاریخی مقامات حکومت اورشہریوں کی توجہ کے متقاضی ہیں تحصیل گور کٹھڑی، بازار کلان، موچی لڑہ، ریتی بازار،ڈھکی نعلبندی،بازار فیل بان، بازارِشتر باناں، بازار ٹین گران، بازرِ چڑدی کوبان، بازاردالگراں،محلہ گلاب خانہ، چوک شادی پیر جیسے بے شمار نام ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کی اپنی تایخ ہے، مگر وہ زمانہ گذر گیا اب زمانہ توسیع شہر کاآگیا ہے علامہ اقبال نے کہا تھا
نہیں میری نظر سوئے کوفہ و بغداد
کرینگے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
دیر، سوات اور چترال کے سینئر تاجر کہتے ہیں کہ 1910میں ہمارے اباو اجداد پشاور میں سامان تجارت کی خریداری کر کے پراچگاں کی تلاش میں شہر سے باہر کا رخ کرتے تھے تو ان کو بتایا جاتا تھا کہ شہر سے باہر بھانہ ماڑی کا علاقہ ہے وہاں پراچگاں رہتے ہیں،ان سے بات کریں وہ تمہارا مال اٹھائینگے چنانچہ ایساہی ہوتا تھا آج بھانہ ماڑی شہر کے وسط میں آگیا ہے شہر کی تو سیع نے بڈھ بیر تک اپنا دامن پھیلایا ہوا ہے،آج آپ بھانہ ماڑی کو شہر سے باہر کے علاقوں میں شمار نہیں کر سکتے، پشاور شہر کی توسیع کا پہلا مرحلہ صدر یا کنٹونمنٹ کی صورت میں 1870کے وسط میں شروع ہوا اس کے بعد 1950میں یونیورسٹی ٹاون اور شامی روڈ کے مرحلے آئے پھر 1970کے بعد حیات آباد کی داغ بیل ڈالی گئی، اس کے بعد 1990ء کی دہائی میں ریگی ٹاون شپ کا اعلان ہوا پھر اکیسویں صدی کی ابتدا میں ڈیفنس ہاوسنگ اتھا رٹی آگئی اس کے بعد بحریہ ٹاون کا اعلان ہوتے ہی بڑے بڑے تنازعات نے سر اٹھایا، مگر چھوٹی اور درمیانہ درجے کی ہاوسنگ سکیموں پر ان تنا زعات کا کوئی اثر نہیں ہوا چنانچہ نو شہرہ روڈ، چارسدہ روڈ اور ورسک روڈ پر اچھی اچھی ہاوسنگ سکیمیں بن گئیں اور توسیع جاری رہی شہر کی توسیع کے ساتھ انسانی ضروریات اور نئی بستیوں کے بنیادی تقاضوں پر بھی کام ہوا، شہری سہو لیات کی فراہمی پر بھی کام ہوا،ان کاموں میں نجی شعبے نے اہم کردار ادا کیا شہر کے تعلیمی اداروں میں نجی شعبے نے بڑھ چڑھ کر اپنا مثبت کر دار ادا کیا اس طرح طبی سہولیات کی فراہمی میں بھی نجی شعبے کا کردار قابل تحسین رہا، جہاں بجلی اور گیس سرکاری اداروں نے فراہم کی وہاں پبلک ٹرانسپورٹ نجی شعبے نے مہیا کی آج کا پشاور توسیع شہر کی وجہ سے حد نظر تک پھیل چکاہے ڈرون کیمرے کی تصویروں اور گوگل انجن کے نقشوں میں فصیل شہر کے اندر واقع ایک ہزار سال پرانے پشاور کو ڈھونڈیں تو قلعہ بالاحصار کے مشرق میں شہر کا چھوٹا سا حصہ آب کو نظر آتا ہے اسے دیکھ کر آپ سوچنے لگتے ہیں کیا یہی وہ پشاور ہے جو سمرقند، بخارا، کابل، تاشقند، کاشغر اور یارکند سے آنے والے تجارتی قافلوں کو اپنے دامن میں جگہ دیتا تھا آج بھی پشاور خطے کے شمال اور جنوب کے درمیان تجارت میں مرکزی کردار ادا کررہا ہے مگر اس کا طرزالگ اور اسلوب جداگانہ ہے آج پشاور کی خشک گودی وسطی اور جنوبی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لئے کھلی ہوئی ہے آج پشاور میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے اور ٹرشری کئیر کے جدید ہسپتال اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور یہ توسیع شہر کی ایک خو بی ہے