داد بیداد..مشرق وسطیٰ..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ایشا اور افریقہ کانقشہ سامنے رکھاجائے تو 9ممالک کا ایک چھوٹاسا بلاک نظر آتا ہے جسے مشرق وسطیٰ کا نام دیا جاتا ہے اس میں اسرائیل، فلسطین، کویت، عراق، ایران، بحرین، اردن، لبنان اور سلطنت اومان شامل ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ سعودی عرب، مصر، شام، قطر اور متحدہ عرب امارات اس بلاک میں نہیں آتے خلافت عثمانیہ کے زوال سے اب تک کم و بیش 100سال ہوگئے مشرق وسطیٰ مسلسل جنگ،آگ اوربدامنی کی لپیٹ میں ہے کبھی لبنان میں بد امنی،کبھی عراق ایران جنگ، کبھی کویت عراق تنازعہ،کبھی اسرائیل فلسطین تنازعہ اور کبھی لبنان اسرئیل جنگ، بظاہر ایسالگتا ہے کہ تیل کی دولت کو حاصل کرنے یاگیس کے ذخائر پر قبضہ کے لئے جنگیں لڑی جارہی ہیں یہ بات جزوی طورپر درست ہے عراق اورکویت کے درمیان اسی وجہ سے جنگ ہوئی تھی خطے میں امریکہ کی دلچسپی کا سبب یہی ہے ایران عراق جنگ کاسبب یہ بھی تھامگر کلی طور پر اس مفروضے کو قبول کرنامشکل ہے گذشتہ 100سالوں کی تاریخ اوراس تاریخ میں اسرائیل کے نام سے نئی صیہونی مملکت کے قیام پرغور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تیل اورگیس کی دولت کے ساتھ مسلمانوں،یہو دیوں اور عیسائیوں کے مذہبی جذبات کا بھی خطے کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں بڑا ہا تھ ہے پہلی جنگ عظیم کے دوران 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ با لفور(Balfour) نے ایک اعلامیہ برطانوی حکومت کی طرف سے جا ری کیااعلامیہ دو نکات پر مشتمل تھا پہلا نکتہ یہ تھاکہ برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے لئے ایک خود مختار مملکت کے قیام کی حمایت کرتا ہے دوسرا نکتہ یہ تھا کہ جنگ کے اختتام پر ترکوں کی خلافت عثمانیہ ختم ہو جائیگی اس کی جگہ عربوں کی چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستیں قائم ہونگی جن کو برطانیہ کا پورا تعاون حاصل ہوگا گویا اس اعلامہ کے دو مقاصد تھے مسلمانوں کی سربراہی ترکوں سے چھڑائی جائے ترکوں کی مضبوط خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے عربوں کی کمزور اور طفیلی ریاستیں قائم کی جائیں، دوسرا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی طاقت کا خاتمہ کر کے فلسطین میں یہودیوں کی مضبوط اور طا مقتور حکومت قائم کی جائے عثمانی خلافت 1923ء میں ختم ہوئی، اسرائیل کا قیام 1948ء میں ممکن ہوا کیونکہ 1917سے 1948تک فلسطین کی عرب آبادی کو بے دخل کر کے باہر سے یہودیوں کو لاکر وہاں بسانے کا کام 31سالوں تک جاری رہا اپنے وطن سے بیدخل ہونے والے فلسطینی اردن، لبنان، کویت اور دیگر ملکوں میں پناہ گزین ہوئے لبنان میں بیروت کے قریب صابرہ اور شطیلہ کے دو مہاجر کیمپوں کو اُس وقت شہرت ملی جب امریکی جہازوں نے 16دسمبر 1982کو بے تحاشا بمباری کرکے چار ہزار (4000)مسلمانوں کو شہید اور 10ہزار کو زخمی کردیا گویا مشرق وسطیٰ میں برطانیہ نے آگ لگا ئی تھی امریکہ نے اُس آگ کو بھڑکائی ہے اب مشرق وسطیٰ میں تنازعہ کے چار فریق آمنے سامنے ہیں، پہلا فریق امریکہ ہے، دوسرا فریق برطانیہ ہے تیسرا فریق روس ہے اور چوتھا فریق چین ہے، ترکیہ بھی ایک فریق بن سکتا تھا مگر اس نے پیچھے ہٹنا مناسب سمجھا، مصر اور اردن نے پسپائی اختیار کی لبنان کی حزب اللہ فلسطینی مہاجرین کی فعال تنظیم تھی، خاموش کردی گئی اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ عالمی عدالت نے اسرائیل کو ناجائز ملک قرار دیدیا ہے خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے مفتی تقی عثمانی نے جہاد کا فتویٰ جاری کیا ہے ہمیں اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت کے فیصلے سے فرق نہیں پڑتا ہم پر جنگ امریکہ اور برطانیہ نے مسلط کی ہے جہاد کا فتویٰ جاری ہونے کے بعد بدنی جہاد سے زیادہ مالی جہاد واجب ہوگیا ہے امریکہ نے 200ارب ڈالر اور برطانیہ نے 100ارب پاونڈ حماس کے خلاف جنگ کے لئے مختص کیاہے مسلمانوں کو کم از کم 500ارب ڈالر حماس کی مددکے لئے فراہم کرنا چاہئیے یہ جہاد کی ایک صورت ہے دوسری صورت یہ ہے کہ امریکہ اور بر طانیہ کی مصنوعات کا بائیکا ٹ کیا جائے اور اسلامی ممالک کی حکومتوں پرعوامی دباؤ ڈال کر امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر نے کی راہ ہموار کی جائے۔