Mr. Jackson
@mrjackson
مضامین

داد بیداد..پشاور کا بڑا معالج..ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

ڈاکٹر الف خان کو پشاور کا بڑا معالج کہاجاتاہے پشتو میں ”لوی ڈاکٹر“ کہتے ہیں 1972ء میں پشاور میں تین ہسپتال تھے ڈبگری کامشن ہسپتال، صدرکا فوجی ہسپتال اور شہر کاسرکاری ہسپتال،عوامی زبان میں سی ایم ایچ اورلیڈی ریڈنگ کے نام کوئی نہیں لیتاتھا سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر الف خان کولوی ڈاکٹرکہاجاتا تھالوئی ڈاکٹر کا مطلب ہوتاتھا سپشیلسٹ، میرے سکول کا استاد میر فیاض خان سرکاری ہسپتال میں ”لوی ڈاکٹر“ کے وارڈ میں داخل تھا اس لئے مجھے اس وارڈ میں بار بار جانا پڑتا تھا وارڈ میں ڈاکٹر کے جو نام لکھے تھے ان ناموں میں سب سے اوپر ڈاکٹر الف خان کا نام تھا، نام کے ساتھ ان کی ڈگریوں کا ذکر تھاسب انگلینڈ کی ڈگریاں تھیں ایم بی بی ایس کے ساتھ بھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور نہیں لکھا تھا میں اس سال ایف اے کا امتحان دینے والا تھا مجھے پتہ تھا کہ انگلینڈ جاکر تعلیم حاصل کرنا اور ڈاکٹر بن کر آنا کتنا مشکل ہوگا ڈاکٹر سید امجد حسین نے اُس حسن اتفاق کا ذکر کیا ہے جس نے نوجوان الف خان کو ایف ایس سی کے بعد انگلینڈ کا راستہ دکھایا 1955میں بورڈ کا امتحا ن پنجاب یونیورسٹی لیتی تھی امتحان میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پرچارسدہ کے دیہی علاقہ تنگی سے تعلق رکھنے والے الف خان کولاہور کے کنگ ایڈ ورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا مگر ان کے پاس فیس جمع کرنے کے لئے پیسے نہیں تھے داخلہ نہ لے سکامعمولی ملازمت کے لئے ڈائر یکٹر ایجوکیشن کے دفتر میں درخواست لیکر گیا ڈائریکٹر نے ان کے نمبر دیکھ کر کہا تم میڈیکل کالج کیوں نہیں جاتے؟ اس نے اپنا ماجرا سنایا ڈائر یکٹر کے دفتر میں ملک عبدا لستار مہمند بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا میں تمہیں انگلینڈ بھیجوں گا وہاں تمہاری تعلیم کے تمام اخراجات برداشت کروں گا چنانچہ الف خان نے انگلینڈ سے ڈاکٹری کی بنیا دی تعلیم ایم بی بی ایس کے ساتھ ایف آر سی پی کی دو ڈگریاں بھی حاصل کیں لوئی ڈاکٹر بن کر وطن واپس آیا ملک عبد الستار مہمند نے کہا تھا ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی اچھی خدمت کے ساتھ ایسے قابل طلبا کے تعلیمی اخراجات اپنی جیب سے ادا کروگے جو اس کی استطاعت نہیں رکھتے ڈاکٹر الف خان نے پوری عمر یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی میں 1972سے ڈاکٹر الف خان کا عاشق ہوں مگر اللہ کے فضل سے بیمار ہوکر ان کے پاس نہیں گیا دوست، احباب رشتہ دار بیمار ہوتے تو چترالی لغل خان ان کو لیکر لوی ڈاکٹر کے پاس جاتا لوئی ڈاکٹر مذاق میں ان کو لغڑ خان کہتا تھا جس کے معنی لغل خان سمیت کسی چترالی کو نہیں آتے تھے لوئی ڈاکٹر کو اس مذاق کا بڑا لطف آتا تھا میں بھی غائبانہ اس لطف میں شامل ہوا کرتاتھا پھر وقت نے پلٹا کھایا میں پشاور سے چترال چلا آیا، لغل خان اگلے جہان کو سدھارگئے اور ڈاکٹر الف خان مدت ملازمت پوری کر کے سرکاری ہسپتال سے سبکدوش ہوگئے اور بچوں کے پاس امریکہ چلے گئے ڈاکٹر سید امجد حسین نے ان کا جو خاکہ لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر الف خان اردو کے مشہور شاعر احسان دانش کی طرح محنت کش باپ کابیٹا ہے نویں اور دسویں جماعتوں میں پڑھتے وقت ان کے باپ بیمارہوتے تو سکول سے چھٹی کرکے کام پرجاتا،اسلامیہ کالج پشاور میں داخل ہواتب بھی محنت کشی کی عادت ان کے کام آئی بڑا ڈاکٹر بننے کے بعد محنت کشوں اور کمزوروں پر کبھی رعب نہیں جھاڑا حا لانکہ بڑوں کے لئے ان کے مزاج میں بلا کا اکڑ تھا جنرل فضل حق نے پرائیویٹ کلینک بند کرنے کا حکم دیا تو سب نے حکم کی تعمیل کی ڈاکٹر الف خان نے حکم ماننے سے انکارکیا آخرکارجنرل فضل حق نے نر می دکھائی ڈاکٹر الف خان کا پرائیویٹ کلینک بچ گیا میں نے ان کے انڈور اور آوٹ ڈور جتنے مریضوں کے نسخے دیکھے ان میں ایک بات مجھے بہت پسند آئی وہ دوائی بہت کم لکھتے تھے اُس زمانے میں الٹرا ساونڈ عام نہیں ہواتھا ٹیسٹ اور ایکسرے کے لئے ان کا عملہ کسی خاص لیبارٹری کا نام نہیں لیتا تھا یہی بات تھی کہ بڑے بڑے ڈاکٹروں کے ہوتے ہوئے عوامی زبان میں صرف ڈاکٹر الف خان کو بڑاڈاکٹر کہا جاتا تھا آج کے نوجوانوں کو علم نہیں کہ پشاور کے ایسے معالج بھی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button