داد بیداد ۔۔ذکر احمد دیدات کا۔۔ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

شیخ احمد دیدات کا ذکر خیر آئے تو دل و دماغ کو تازگی ملتی ہے روح کوفرحت حاصل ہوتی ہے علماء کی مجلس میں ان کی یادوں کے چراغ جلیں توخوشی دو بالا ہوتی ہے مولانا فیاض الدین چترالی ماڈل ٹاون لاہورکی مرکزی مسجد میں جمعے کا خطبہ دیتے ہیں جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث ہیں اب کی بارچترال تشریف لائے تومفتی عتیق الرحمن اور مولاناحا جی اکبرنے ان کے اعزاز میں ظہرانہ کی مجلسیں منعقدکیں ان مجلسوں میں اسلامی نظام کے قیام،نفاذ شریعت کے بنیادی تقاضوں اور لوازمات پربھی گفتگو ہوئی تقابل ادیان اور منا ظرے کی علمی روایات کا حوالہ بھی آیاعالمی سطح پراسلام کی دعوت پھیلانے اور عیسائی مشنری تنظیموں کے ساتھ منا ظروں میں عالمی سطح پر شہرت پانے والے مسلمان مبلغ شیخ احمد دیدات کا ذکر خیر بھی آیا ہمارے حکمران اسلام کا نام محض عوامی جذبات سے کھیلنے کے لئے لیتے ہیں ایوب خان نے مسلم فیملی لاز کا شوشہ چھوڑ دیا وہ قوانین انگریز کے قانون سے بھی زیادہ کمزور ثابت ہوئے، 1980ء اور 1990ء کے عشروں میں نفاذ شریعت کے جو اعلانات ہوئے وہ نمائشی اعلانات تھے چند مواقع ایسے آئے جب علما اور مشائخ کو مشاورت کے لئے بلایا گیا، جید علما ء نے مشورہ دیا کہ نفاذ شریعت کی بنیادی ضرورت قانون سازی نہیں فقہا نے قوانین وضع کئے ہوئے ہیں بنیادی ضرورت افرادی قوت، رجال کار کی تیاری اور عوام کی ذہن سازی ہے جھوٹ اور مکر و فریب کے بازار میں شریعت کا پاکیزہ قانون نافذ کرنا شریعت کے ساتھ مذاق کے مترادف ہوگا نفاذ شریعت کے لئے پولیس،قاضی، مد عی، مد عاعلیہ، گواہ اور وثیقہ نویس میں سے ہر ایک کا عادل منصف اور دیانت دار ہونا لازم ہے ان میں سے کوئی ایک بھی شریعت کے معیار کانہ ہوشرعی نظام نہیں آسکتا ایک بار علما سے سوال ہوا کتنے ایماندار لوگ درکار ہونگے شیخ الحدیث نے جواب دیا جتنی پاکستان کی آبادی ہے اس کے نصف لوگ ایما ندار ہونگے تو شریعت کا نفاذ ممکن ہوگا زبانی جمع خرچ اور کھوکھلے نعروں سے شریعت نافذ نہیں ہوسکتی عالمی سطح پر اسلام کی دعوت اور شریعت کے منہج و منشا کو عام کرنے کا ذکر ہوا تو مو لانا فیاض الدین نے کمال فیاضی اور وسعت نظری سے بیسویں صدی کے مشہور مناظر اور مبلغ شیخ احمد دیدات کا حوالہ دیا نہوں نے علماء کی ایک بڑی نشست میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ”ہر زمانے کے اپنے فتنے ہوتے ہیں اور ان فتنوں کی کوئی نہ کوئی زبان ہوتی ہے اس زبان پر عبور حا صل کئے بغیر فتنوں کا سدباب نہیں کیا جاسکتا، موجودہ زما نے کے جتنے فتنے ہیں ان کی مشترکہ زبان انگریزی ہے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اسلام کے مبلغ اور قرآن و حدیث کے عالم کو انگریزی پر کامل دسترس بہم پہنچانی چاہئیے“مولانا فیا ض الدین چترالی کہتے ہیں کہ یہ کتا بی بات نہیں ہے کہ کسی کتاب میں پڑھ کے بتادیا بلکہ یہ ایسے شخص کی بات ہے جس نے 70سالوں تک اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے دنیا بھر میں مختلف مذاہب کے مبلغین اور خاص کر عیسائی مشنریوں کے ساتھ مناظرے کئے اور لاکھوں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا، ایک ایسی شخصیت جس نے بھارت کے صوبہ گجرات کے شہر سورت میں حسین کاظم دیدات کے ہاں 1918ء میں آنکھ کھو لی جنوبی افریقہ کے صوبہ کوازو لوکے شہر ناٹل میں سکونت اختیار کی 24سال کی عمر میں جنوبی افریقہ کے ساحلی شہر ڈربن (Durban) کے سینما ہال میں پہلا تبلیغی لیکچر دیا یہاں سے اُس کے لیکچر اور مناظرے شروع ہوئے 1942سے شروع ہونے والایہ تبلیغی سفر 1986 ء میں شاہ فیصل ایوارڈ ملنے تک استقامت کے ساتھ جاری رہا 1986ء کے بعد شیخ احمد دیدات کو بین الاقوامی شہرت ملی آپ نے امریکہ، یورپ، افریقہ اور ایشیا کے بے شمار ممالک کے دورے کئے ہرجگہ آپ نے تقابل ادیان پر لیکچر دیے، 1987ء میں ڈاکٹر ذاکر نائیک آپ کے قافلے میں شامل ہوئے پاکستان کے ساتھ شیخ احمد دیدات کا گہرارشتہ تھا 1949سے 1951تک آپ نے کراچی میں قیام کیا 1987ء میں آپ نے پاکستان کا دورہ کیا جنرل ضیاء الحق نے آپ کو سرکاری پروٹوکول دیا 2005میں آپ نے ناٹل جنوبی افریقہ میں وفات پائی ان کا مشن ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جاری رکھا ہوا ہے آپ کی بنائی ہوئی تنظیم IPCIنے اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جامعہ اشرفیہ کا دورہ کیا تو مولانا فیاض الدین چترالی سے ہاتھ ملاکر مختصر گفتگو میں کہا مجھے نصیحت کیجئے انہوں نے انکساری سے کام لیتے ہوئے جواب دیا آپ عالمی سطح کے مبلغ اسلام ہیں ہم کیا نصیحت کریں گے! ذاکر نائیک نے کہا آپ حدیث کے استاد ہیں صحاح ستہ پڑھاتے ہیں آپ کے پاس علم کی روشنی اور دعوت کی بصیرت ہے، شیخ الحدیث نے کہا میری نصیحت وہی ہے جو مفتی تقی عثمانی صاحب نے کی تھی تقابل ادیان آپ کا مو ضوع ہے دعوت و تبلیغ آپ کا مشن ہے اس سے ہٹ کر کوئی کام نہ کیجئے یہی شیخ احمد دیدات کا مسلک تھا مولانا فیاض الدین چترالی کی مجلس اور شیخ احمد دیدات کا ذکر، کسی نے سچ کہا خدا دے اور بندہ لے۔