مضامین

داد بیداد ۔کمپیوٹر سائنس نامنظور ۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

خیبر پختونخواہ کی حکومت پچیس سالوں سے مسلسل اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ کمپیوٹر سائنس نا منظور، حکومت کہتی ہے کہ انگریزی،اردو، عربی، پشتوسب منظور صرف کمپووایوٹر سائنس نا منظور، اس کا مستند حوالہ یہ ہے کہ تمام مضامین کے اساتذہ اور دفتری ملازمین کا ملازمتی ڈھانچہ اور ترقی کا طریقہ کار دیا گیا ہے کمپیوٹر سائنس، ریاضی اور فزکس پڑھانے والوں کو ملازمتی ڈھا نچے سے نکال دیا گیا ہے اور دفاتر میں کلاس فور ترقی کر کے جونیئر کلرک سے لیکر سپرنٹنڈنٹ تک جاسکتاہے کمپیوٹر اپریٹر جس سکیل پر بھرتی ہوا تھا اسی سکیل پر ریٹائرمنٹ لیتا ہے، حکومت کہتی ہے کہ کمپیوٹر سائنس کس چیز کا نام ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی کسے کہتے ہیں؟ یہ دونوں دفتری زبان میں انجان چیزیں ہیں تم نے پشتو، اردو یا عربی میں پرائیویٹ ایم اے کیوں نہیں کیا ریگولر داخلہ لیکر ماں باپ کا پیسہ لگا کر کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم عرض کرتے ہیں کہ پوری دنیا میں کمپیوٹر سائنس ٹاپ پر ہے، پاکستان کی وفاقی حکومت کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس سی کو ترقی کے مواقع دیتی ہے پنجاب، سندھ، بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان میں کمپیوٹر سائنس کی ڈگری رکھنے والوں کو سکیل 16سے سکیل 20تک ترقی کے مواقع حاصل ہیں، کمپیوٹر اپریٹر محکمے کا ڈائریکٹر بن سکتا ہے میتھ اور فزکس کے جس ٹیچر کے پاس کمپیوٹر سائنس کی ڈگری ہو وہ سکیل 16سے ترقی کرکے سکیل 20تک جاسکتا ہے ان باتوں میں دلیل بھی ہے اور مثا لیں بھی دی گئی ہیں لیکن خیبر پختونخوا کی حکومت کا اپناہی لیول ہے اس حکومت کا کہنا ہے کہ جو نیر کلرک کی ترقی کا ملازمتی ڈھانچہ مو جود ہے ایس ایس ٹی جنرل کی ترقی کا ملازمتی ڈھانچہ سب کے سامنے ہے ایس ایس ٹی بیالوجی کا ملازمتی ڈھا نچہ قواعد و ضوابط میں آیا ہے میتھ اینڈ فزکس کاذکر کسی قانون میں ہمیں نظر نہیں آتا، ہم کہتے ہیں کہ قانون کی کتاب میں آپ لوگ لکھتے تو نظر آجاتا آپ نے لکھا ہی نہیں تو نظر کیسے آئیگا محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم میں ملازمتی ڈھانچے کے قواعد و ضوابط 1935ء میں انگریزوں نے بنائے تھے لگ بھگ سو سال پہلے کمپیوٹر سائنس کا مضمون نہیں تھا، کمپیوٹر اپریٹر کی ضرورت نہیں تھی اکیسویں صدی میں کمپیوٹر سائنس اورانفارمیشن ٹیکنالو جی کا دور آگیا مظفر آباد اور گلگت سے اسلام اباد، لاہور، کراچی اور کوئیٹہ تک سب کو پتہ چل گیا تخت پشاور پر حکومت کرنے والوں کو اب تک اس کی خبر نہیں پہنچی ایک دل جلے نے ایسی ہی حالت کو دیکھ کر مصرعہ کہا تھا ”یہ اندھوں کا دیس ہے اے چاند یہاں نہ نکلا کر“ سنا ہے کہ صو بے کا چیف منسٹر کئی کتابوں کے مصنف کا بیٹا ہے، سنا ہے کہ صوبے کا چیف سکرٹری دفتری امور میں غیر معمولی مہارت رکھتا ہے، سنا ہے کہ اسٹبلشمنٹ سکرٹری کی منصف مزاجی بھی مشہور ہے اور سنا ہے کہ محکمہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کا وزیر بھی اکیسویں صدی کے تقاضوں سے خوب آگاہی رکھتا ہے ”سنا ہے کہ ربط ہے اس کو خراب حا لوں سے“سو یہ وقت ایسی تجویز کے لئے مناسب معلوم ہوتاہے کہ کابینہ کی منظوری سے ایک بل اسمبلی میں پیش کرکے صوبے میں کمپیوٹر سائنس کی ڈگری رکھنے والوں کو بھی ٹیچنگ اور آفیشل کیڈروں میں دوسروں کے برا بر ترقی کے مو اقع دینے کی راہ ہموار کی جائے
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک
اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی حکومت اور دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا کی حکومت کمپیوٹر سائنس، میتھ اور فزکس کو اپنے دفترات اور سکولوں میں دیگر کیڈروں کی طرح منظور کرے اور نا منظور کی تکرار ختم کردے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button