کیا عوامی ہسپتال عوام کے ہیں یا چند مخصوص ڈاکٹروں کے نجی کلینکس کے اشتہاری مراکز۔؟ ….. فتح اللہ

جس موضوع پر آج قلم اٹھانے کی کوشش کی ہے، اس کی وجہ ایک سوشل میڈیا صارف کی رائے ہے جسے میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اس نے میرے ایک پوسٹ پر تبصرہ کیا تھا۔ وہ پوسٹ اس وقت کی تھی جب میں نے پرائیویٹ کلینک سے RCT (روٹ کینال ٹریٹمنٹ) کروانے کے بعد اپنی تصویر کے ساتھ یہ جملے لکھے تھے:
"دانت اللہ کی نعمت ہیں، وقت پر خیال نہ رکھنے سے یہ نعمت درد میں بدل جاتی ہے۔ آج اسی تکلیف کے باعث RCT کروانا پڑا۔ دانتوں کی حفاظت کریں تاکہ مسکراہٹ سلامت رہے۔”
اس پر اس صارف نے بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا:
"ستم ظریفی یہ ہے کہ دانت کا علاج اب تک ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب نہیں۔ دانت کے مریضوں کو ہسپتال میں ڈاکٹر معائنہ کرنے کے بعد کلینک ریفر کرتے ہیں۔ سرکاری ہسپتال میں آر سی ٹی کا نظام نہ ہونا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔”
یہ تبصرہ میرے دل کو لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم چترالی اکثر ایک دوسرے کی عزت و تکریم کے خیال سے بہت کچھ کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر بطور صحافی یہ ہماری کوتاہی ہے کہ ہم ایسے بنیادی مسائل پر بروقت اور کھل کر آواز نہیں اٹھاتے۔ یہی احساس آج کے اس کالم کی بنیاد ہے۔
چترال کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال (لوئر) میں ڈینٹل یونٹ ضرور موجود ہے، مگر افسوس کہ یہ یونٹ اپنی اصل مقصدیت کھو چکا ہے۔ روزانہ چار سے پانچ ڈاکٹرز وہاں بیٹھتے ہیں، لیکن عملی سہولت عوام کو میسر نہیں۔
میں نے خود کئی مرتبہ اس یونٹ کا رخ کیا، لیکن ہر بار مایوسی ہی ملی۔ دانتوں کے علاج کے لیے کوئی واضح مشورہ نہیں دیا جاتا، بلکہ اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ "آپ آر سی ٹی کروائیں”۔ سوال یہ ہے کہ جب ہسپتال میں یہ سہولت موجود ہی نہیں تو پھر مریض کو کیوں بار بار اس طرف دھکیلا جاتا ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ آر سی ٹی کی سہولت صرف انہی ڈاکٹروں کے پرائیویٹ کلینکس میں دستیاب ہے، جہاں غریب مریضوں کو ہزاروں روپے ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہسپتال میں دانت نکالنے کی سہولت بھی غیر معیاری ہے۔ مریض جب دانت نکلواتا ہے تو اکثر مسوڑھے اور اندرونی ٹشوز بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ اپنے کلینک پر انجیکشن کے اثرات کے بارے میں بار بار سوال کیا جاتا ہے، جبکہ سرکاری ہسپتال میں جلدی بازی کا مظاہرہ کرتے اور عجلت میں علاج مزید تکلیف دہ بن جاتا ہے۔
یہ بات میں مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ ہماری ایک خاتون اسٹاف کا دانت نکالا گیا تو وہ بعد میں شدید درد میں مبتلا ہوئیں اور دوبارہ ٹانکے لگانے پڑے۔ اگر جدید آلات اور معیاری طریقۂ علاج میسر ہوتے تو ایسی صورتحال کبھی پیدا نہ ہوتی۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر مریض کو آخرکار پرائیویٹ کلینک ہی جانا ہے تو پھر ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ڈینٹل یونٹ کا وجود کس مقصد کے لیے ہے؟ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے قائم یہ ادارے کیا واقعی عوامی خدمت کے لیے ہیں یا پھر محض پرائیویٹ کلینکس کے ریفرل مراکز بن چکے ہیں؟
عوامی مشاہدے اور تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ڈینٹل یونٹ اب ایک "ریفرل پوائنٹ” سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ غریب اور نادار طبقہ جو سرکاری ہسپتال سے امید لگائے بیٹھا ہوتا ہے، وہ بالآخر پرائیویٹ کلینکس کے مالی بوجھ تلے دب جاتا ہے۔
یہ حکومت اور محکمۂ صحت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر واقعی عوامی سہولت مقصد ہے تو ڈسٹرکٹ ہسپتال لوئر چترال کے ڈینٹل یونٹ کو جدید سہولیات اور آر سی ٹی جیسے علاج سے آراستہ کیا جائے۔ مریضوں کے قانونی اور بنیادی حقوق ہر صورت میں فراہم ہونے چاہییں۔ بصورت دیگر یہ یونٹ محض نام کا رہ جائے گا اور اس سے فائدہ عوام نہیں بلکہ چند مخصوص حلقے اٹھاتے رہیں گے۔
آخر میں میں یہی کہنا چاہوں گا کہ عوامی پیسے سے بنے ادارے اگر عوام کے کام نہ آئیں تو یہ ظلم کے سوا کچھ نہیں۔