*استاذ… چراغِ راہِ انسانیت*..تحریر: ابو سلمان محمدقاسم

> “*إنما بعثت معلماً*
’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
یعنی خود سرورِ کائنات ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد تعلیم و تربیتِ انسانیت قرار دیا۔ یہی نسبت ہے جس نے “استاذ” کو عزت و عظمت کے بلند ترین مقام تک پہنچایا۔
*استاذ — معلمِ انسانیت کی جھلک*
جب نبی اکرم ﷺ صفہ کے مسند پر بیٹھ کر صحابہ کرام کو قرآن پڑھاتے تھے، اخلاق سکھاتے، کردار تراشتے — تو دراصل وہی “پہلا مدرسہ” تھا، جس سے انسانیت کے سب سے عظیم معلم کی تعلیمات نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔
آج ہر مخلص استاذ، اسی مشن کا امین ہے۔
استاذ وہ ہے جو صرف کتاب نہیں پڑھاتا بلکہ زندگی پڑھاتا ہے، کردار گھڑتا ہے، ضمیر جگاتا ہے۔
*اقبال کا پیغام*
علامہ اقبال نے استاذ کے منصب کو قوم کی تقدیر کا امین قرار دیا:
> وہی قوم آج کرتی ہے تربیت جن کی
کہ لرزتے ہیں جن کے ارادوں سے کوہسار
اقبال کے نزدیک تعلیم کا مقصد محض الفاظ کا رٹّا نہیں بلکہ خودی کی بیداری ہے — اور یہ بیداری استاذ کے کردار سے پیدا ہوتی ہے، نصاب سے نہیں۔
> دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم؟
یہی وہ فیصلہ ہے جو استاذ اپنے شاگرد کے دل میں اُتارتا ہے — کہ زندگی کا مقصد پیٹ نہیں، روح کی بلندی ہے۔
*حکماء اور فلاسفہ کی نظر میں*
*افلاطون* کہتا ہے:
> “جو قوم اپنے اساتذہ کی قدر نہیں کرتی، وہ خود اپنے مستقبل سے غافل ہو جاتی ہے۔”
*ارسطو* نے کہا:
> “میں اپنے باپ کا مقروض ہوں کہ اُس نے مجھے زندگی دی، لیکن اپنے استاذ کا مقروض ہوں کہ اُس نے مجھے جینے کا سلیقہ دیا۔”
اور *امام غزالیؒ* نے فرمایا:
> “استاذ وہ ہے جو شاگرد کو دنیا اور آخرت دونوں کے راستے دکھاتا ہے۔”
*معاشرے میں استاذ کا احترام*
آج کے مادہ پرست دور میں سب سے زیادہ جس رشتے کو احترام کی ضرورت ہے، وہ استاذ اور شاگرد کا رشتہ ہے۔
افسوس کہ جدید دنیا نے استاذ کو محض ایک “ملازم” بنا دیا ہے، حالانکہ وہ قوموں کے ضمیر کا محافظ ہوتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ روشنی کی راہ پر چلے، تو ہمیں استاذ کو اُس کا کھویا ہوا مقام واپس دینا ہوگا — وہی مقام جو کبھی تخت سے زیادہ بلند سمجھا جاتا تھا۔
*تعلیم و تربیت — قوم کی بقا کی ضمانت*
تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے اپنے معلمین کو عزت دی، اُن کے نصیب سنور گئے۔
استاذ وہ بیج بوتا ہے جس سے مستقبل کی فصل اگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شاعرِ مشرق نے فرمایا:
> افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اور وہ ستارہ استاد کے ہاتھوں ہی تراشا جاتا ہے۔
*یوم استاذ*
یومِ اساتذہ کا تقاضا صرف مبارکباد نہیں — احترام، خلوص، اور عمل ہے۔
جب شاگرد اپنے استاد کے سامنے ادب سے جھک کر کہے “جزاک اللّٰہ خیراً” تو دراصل وہ علم کے نور کو سلام کر رہا ہوتا ہے۔
استاد… وہ چراغ ہے جو جلتا ہے تو دوسروں کو روشنی دیتا ہے،
اور یہی اس کی سب سے بڑی قربانی اور سب سے بڑی عظمت ہے۔
آ ئیے ہم عہد کریں کہ ہم اپنے اساتذہ کے مقام ومرتبہ کو پہچانیں گے۔
ان کیلئے عزت،دعا،اور محبت کے چراغ روشن کریں گے۔
*چراغ خود جلے اوروں کو روشنی دے*
یہی استاذ کا مقام یہی استاذ کا پیغام ۔
اللہ تعالیٰ تمام اساتذہ کو جزائے خیر دے ۔۔۔۔
جو خاموشی سے ،اخلاص سےاور ایمان کے جذبے سے قوم کے دلوں میں علم و کردار کی روشنی پھلارہے ہیں