267

شندور کا مقدمہ، فیضی صاحب سے معذرت کے ساتھ۔۔۔۔۔تحریر: ممتاز حسین گوہر

logo
مجھے خوشی اس بات کی ہے شندور کا سہہ روزہ میلہ بخیر و عافیت اپنے انجام کو پہنچا۔ اس میلے سے چند روز قبل “شندور میدان” کی ملکیت کے حوالے سے حسب سابق ایک تنازع دوبارہ سامنے آیا تھا دونوں اطراف کے لوگ وقتی طور پر جذباتی بھی ہوئے تھے اور کچھ لکھاری حضرات نے اس جذباتی رویے کو بڑھاوا دینے کے لیے قلم کا خوب استعمال کیا مگر کامیابی نہیں مل سکی۔ ایک وقت میرا دل بھی چاہ رہا تھا کہ شندور کے حوالے سے سامنے آنے والی چند مخصوص تحریروں کا جواب دوں۔ مگر وہ وقت کسی بھی طرح سے مناسب نہیں تھا کسی حد تک عوام جذباتی کیفیت سے گزر رہے تھے۔ شندور میں دونوں علاقوں کی پولو ٹیموں کا آمنا سامنا ہونا تھا اور چھوٹی سی بھی چنگاری خدانخواسطہ آگ لگانے کا موجب بن سکتی اب پولو فیسٹول اختتام پذیر چکا ہے تو یہ بہترین موقع ہے کہ شندور کے حوالے سے چند حقائق سامنے لائے جائیں۔
انتہائی محترم ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے اپنی تحریر “ممتاز حسین گوہر کے لیے” میں دوبارہ چند سوالات اٹھائے ہیں میں مناسب سمجھتا ہوں پہلے ان پر بات کر کے شندور کے بقیہ تاریخی و قانونی پہلوؤں پر بات کی جائے۔ سب سے پہلے20 اپریل 2015 ء میں گلگت بلتستان کی عبوری حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت کے مابین پشاور میں ہونے والی مفاہمتی یاداشت(ایم او یو) کو ایک بار پھر بھارتی سازش قرار دیا ہے اور ان کے بقول اس معاہدے کی خبر آل انڈیا ریڈیو، آغاشوانی اور ریڈیو سری نگر سے سب سے پہلی چلی لہٰذا یہ سب بھارت کے ایماء پر کیا گیا۔چترال کے ہی ایک معزز صاحب پہلے ہی اس کا جواب کچھ یوں دے چکے ہیں کہ فیضی صاحب کو دونوں اطراف سے اس اہم میٹنگ کے لیے مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا لہذا یہ تب سے اب تک اسے بھارت کی کارستانی قرار دے کر اپناغصہ ٹھنڈا کر رہے ہیں۔ اس شخص کا جواب اپنی جگہ مگر آپ اس مفاہمتی یادداشت کو نہ صرف بھارت بلکہ سی آئی اے اور موساد کی کارستانی بھی قرار دیں مگر حقائق سے انحراف مسئلے کا حل نہیں. اس یادداشت میں برابری کے تحت پولو کا انعقاد جس میں انتظامی معاملات،مہمانوں کو بٹھانے کے انتظامات، رائیلٹی، فنڈنگ و سپانسرشپ کی برابر تقسیم، دس منٹ کا سپاسنامہ پانچ پانچ منٹس میں تقسیم وغیرہ شامل تھے جس پر دونوں حکومتوں کے باقاعدہ دستخط ہیں. یقیناً یہ لوگ بڑے سمجھ بوجھ والے تھے اور فیصلہ بھی اپنی مٹی سے وفاداری کو دیکھ کر ہی کیا ہوگا۔ مگر اس کے بعد سے اب تک چند عناصر اس یادداشت کو موضوع بحث بنا کر بھی شندور کے دونوں اطراف غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک پائے کا لکھاری ریڈیو میں نشر ہونے والی ایک خبر سننے کے بعد دو علاقوں کے ذمہ داروں کو کیسے “را” کا ایجنٹ قرار دے سکتا ہے؟مجھے امید ہے کہ آپ آیندہ کی تحریروں میں ان بھارتی ایجنٹوں کی تمام تفصیلات سامنے لائیں گے کیوں کہ ہم بھی گلگت بلتستان کی سرزمین پرایسے کسی ضمیر فروش کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
فیضی صاحب کا کہنا ہے کہ 2010 میں محترمہ سعدیہ دانش کے ذریعے پہلی بار شندور کے مسئلہ کو اٹھایا گیا تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ شندور اس وقت سے متنازعہ رہا ہے جب شندور سے دو کلومیٹر دور پنجی لشٹ کے مقام پر باؤنڈری لائن کی نشاندہی کے لیے بنائے گئے کتبہ نما مینار کو چوری چھپے اکھاڑ پھینکا گیا اور خاص سوچی سمجھی سازش کے تحت یہاں دراندازی اور تجاوزات کا آغاز کرایا گیا۔
میرا ایک دوست اکثر اوقات ایک سادہ سا محاورہ استعمال کرتا ہے کہ “انگلی کیا پکڑائی پورا ہاتھ ہی پکڑ لیا” یہ محاورہ شندور میں چترال کے ناجائز قبضے اور غیر قانونی تجاوزات کے حوالے سے انتہائی صادق آتا ہے یہ نا جائز قبضہ 1992 میں پنجی لشٹ میں باونڈری لائن کی نشاندہی کے لئے بنائے گئے مینار کو گرا کر نشانات تک مٹانے سے ہی شروع ہوتا ہے۔ اس قبضے کو مزید تقویت اس وقت ملی جب گلگت بلتستان سکاؤٹس کے وفاق کے ساتھ بحالی و دیگر معاملات چل رہے تھے اس وقت چترال سکاؤٹس کو متبادل کے طور شندور لایا گیا اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چترال سکاؤٹس نے نہ صرف وہاں ایک عارضی ہٹ تعمیر کیا بلکہ وقت کے سات ساتھ غیر قانونی تعمیرات بھی ہوتے رہے۔
جو یہ سمجھتے ہیں کہ شندور متنازعہ ہی نہیں تو انھیں ذرا وزارت سٹیٹس اینڈ فرنٹیئرریجن اور وزارت امور کشمیر و جی بی کا منعقدہ اجلاس جولائی 2003 ء کے میٹنگ منٹس کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ حقیقت سے مذید واقف ہوں۔اس میٹنگ میں کانا ڈویڑن اورSAFRON کے علاوہ دونوں طرف کے انتظامی افسران، معتبران، پاک آرمی کے افیسران اور سروے آف پاکستان کے ذمہ دار بھی شریک ہوئے جس میں دونوں علاقوں کے شندور کے حوالے سے تحفظات کو ترتیب وار درج کیا گیا ہے۔ اس میٹنگ منٹس کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پنجی لشٹ کا شندور کی موجودہ باونڈری لائن ہونے کا ذکر موجود ہے جو شندور جھیل سے ایک کلومیٹر چترال کی جانب واقع ہے۔ اسی میٹنگ میں سات دنوں کے اندر تاریخی دستاویزات کے ذریعے شندور پر ملکیت ثابت کرنے کا بھی دعوی کیا گیا مگر ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزر گیامسئلہ بدستور اپنی جگہ موجود ہے۔میٹنگ کے ورکنگ پیپر میں بھی پنجی لشٹ کو باونڈری لائن قرار دیتے ہوئے سروے آف پاکستان میپ شیٹ نمبر 12 42D/سال 1984 کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
جس کو شندور کے حوالے سے تاریخی شہادتوں کی ضرورت ہے وہ یہ بات ذہن میں رکھے کہ عالمی قوانین کے مطابق باونڈریوں کی تقسیم پانی کے بہاؤ (واٹر شیڈرول)کے مطابق ہوتی ہے اسی حساب سے ہی پنجی لشت کو غذر اور چترال کے درمیان باونڈری لائن قرار دے دی گئی ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پنجی لشٹ کے مقام پر ہی قدیم زمانے میں غذر اور چترال کے درمیان جنگ لڑی گئی ہے یہ بھی اس بات کا واضح اظہار ہے کہ پنجی لشت ہی غذر اور چترال کے درمیان باونڈری لائن ہے۔
سٹیٹس اور فرنٹیئرریجن اور وزارت امورکشمیر وجی بی کے منعقدہ اجلاس جولائی 2003 کے ورکنگ پیپر میں لکھا گیا ہے کہ تاریخی شواہد سے واضح ہے کہ غذر کے عوام نے 21 جولائی 1914 ء کو ہونے والے ایک معاہدے کے تحت چترال کے عوام کو گھاس چرائی کے کا اختیار دیا تھا۔
چترال کی طرف سے شندور میں مداخلت اور تجاوزات جب بڑھنے لگے تو ستمبر 2002 ء میں دو ہزار کے قریب لوگوں نے احتجاج ریکارڈ کر وایا۔ انتظامیہ کی بر وقت مداخلت اور مسئلے کے حل کی یقین دہانی پر مظاہرین پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔
جب گلگت بلتستان کی تقسیم سے پہلے کی بات کی جائے تو چترال اور گلگت بلتستان کے درمیان ہونے والی ڈاک کے سامان اسی مقام (پنجی لشٹ) پر ایک دوسروں کے حوالے کیا جاتا تھا۔جب ٹیلی فون لائن کے کھمبے بچھانے کا وقت آیا تو گلگت بلتستان کی طرف سے اسی باونڈری لائن تک بچھائے گئے۔ اور یہ سلسلہ 1960 تک چلتا رہا۔عنایت اللہ فیضی صاحب نے اپنے کتابچے میں پنجی لشٹ کی جگہ لنگر کا ذکر کیا ہے۔اسی طرح غذر مستوج روڑ کا ٹینڈ ر اور پی ڈبلیو ڈی غذر کی یس سے متعلقہ کاغذات بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
شندور کو کشمیر کا اٹوٹ انگ قرار دینے والے تھوڑا سا ٹائم نکال کر عالمی سطح پر انتہائی معتبر اور سب سے اہم سائٹ گوگل میپ کا بغور جائزہ لے سکتے ہیں۔یہاں سے بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ یقیناً اس میں بھی یہی کہا جائے گا کہ غذر اور گلگت بلتستان والوں نے گوگل انتظامیہ کو رشوت دی ہے اور یوں پنجی لشٹ کو باونڈری لائن ڈکلئیر کر وایا گیا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدہ جسے “سینو پاکستان فرنٹیئر اگریمنٹ 1963” کا نام دیا گیا ہے اس معاہدے کے آرٹیکل 2 میں باقاعدہ واٹر شیڈ یعنی پانی کے بہاؤ کے قانون کا ذکر ہے. اس معاہدے اور اس قانون کے حساب سے بھی پنجی لشٹ کے باونڈری لائن ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔
برٹش سروے لائن کے حساب سے ٹیرو ریسٹ ہاؤس سے غذر کی باو نڈری لائن تک کا فاصلہ 21 میل درج ہے یوں اس سے بھی پنجی لشٹ کے باونڈری لائن ہونے کی تصدیق ہو جاتی ہے۔
یہاں یہ بات انتہائی اہم اور اکثر اسی بات کو جواز بناکرسوال اٹھائے جارہے ہیں کہ چترال انتظامیہ اور چترال سکاؤٹس نے شندور پر تجاوزات بنائے، چترال سکاؤٹس ایک عرصے سے اس جگہ موجود ہے اور شندور کے انتظامات میں میں بھی اہم حصہ چترال کا ہی رہا ہے۔گلگت بلتستان والے کہاں سوی ہوئے تھے اچانک یہ مسئلہ کیوں اٹھا رہے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے یہاں ذکر شدہ چند شواہد کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سارے واقعات اور حقائق بالکل واضح کرتے ہیں کہ غذر کے عوام ہمیشہ وقت کے ساتھ آواز اٹھاتے رہے اور اس مسئلے کو لے کر مختلف فورمز اور اعلی عدالتوں تک بھی گئے ہر جگہ اپنا احتجاج ریکارڈ کر وایا ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے علاقے میں قبضہ کرنے والوں کو بزور طاقت کیوں نہیں ہٹایا تو یہ ایک ذہنی اختراع یا ایک سوچ ضرور ہو سکتی ہے لیکن غذر کے عوام اور یہاں کی تاریخ شاہد ہے کی ایسے معاملات میں عوام نے کبھی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا ہے بلکہ قانون کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔کچھ دیر کے لیے ہم فرض کرتے ہے کہ غذر کے عوام اٹھ کھڑے ہوتے شندور کی طرف مارچ کرتے وہاں تجاوزات گراتے علاقے کو اپنی تحویل میں لیتے تو کیا چترال کے عوام خاموش بیٹھے؟ یقیناً وہ بھی سامنے آجاتے اور خدا نخواستہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجاتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟ کیا اس سے آپس کی صدیوں پر محیط انتہائی قریبی برادرانہ و دوستانہ تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم نہ ہوتے صرف یہی نہیں بہت کچھ ہوتا اور دونوں علاقے ترقی کی دوڑ میں بھی بہت پیچھے رہ جاتے۔لہذا غذر کی عوام کو اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ انھوں نے اب تک قانون کی طرف دیکھا ہے انصاف کو پکارتے رہے ہیں لیکن قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی۔
حالات و واقعات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ اب اس مسئلے کو مزید طول نہیں دینا چاہیے ماضی میں جس طرح اس مسئلے کو جان بوجھ کر طول دیا گیا اور پس پردہ ایسی کوششیں بھی ہوتی رہی ہے کہ دونوں علاقوں کے عوام کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا جائے مگر کامیابی نصیب نہیں ہو سکی۔ وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ ایسی سازشوں کی بوپھر سے آرہی ہے مگر چترال اور غذر کے عوام نے ہمیشہ عملی طور امن پسندی کا ثبوت دیا ہے۔اب بھی یہاں کے دونوں اطراف کے عوام کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جتنا اس مسئلے کو طول دیں گے باہمی تعلقات میں تلخی پیدا ہوتی رہے گی پورا سال نہ سہی شندور فیسٹیول جیسے موقعوں پرہی لوگ اس مسئلہ پر سوالات اٹھا کر مستقبل کے لیے تلخیاں پیدا کر سکتے ہیں۔سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں شندور ہر حوالے سے ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس مسئلے کا بروقت حل چترال گلگت بلتستان اور خود حکومت پاکستان کے انتہائی مفاد میں ہے۔
وکی پیڈیا اور دیگر مستند جگہوں پر یہ واقعہ واضح طور پر درج ہے کہ 1935 ء میں برطانوی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کے مقرر کردہ منتظم ای ایچ کوب نے گاؤں گلاغمولی کے نمبردار نیت قبول حیات کاکاخیل کو یہ ہدایات جاری کئے کہ شندور میں ایک بڑا پولو گراؤنڈ تعمیر کیا جائے۔ اس گراؤنڈ کو مس جنالی کا نام دیا گیا۔کھوار زبان میں مس چاند کو اور جنالی پولوگراونڈ کو کہتے ہیں۔کوب چاند کی روشنی میں پولو کھیلنے کا دلدادہ تھا۔ گراؤنڈ کی تعمیر پر انگریزمنتظم کوب نیت قبول کے کام سے انتہائی متاثر ہوا اور کسی بھی قسم کی فرمائش قبول کرنے کی حامی بھری مگر نمبردار صاحب نے کہا کہ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے اگر آپ کچھ دینا ہی چاہتے ہیں تو یہاں کے مقامی ندی نالوں میں ٹراؤٹ مچھلی ڈال دیں۔یوں کوب نے انگلینڈ سے مچھلیاں منگوا کر ان ندی نالوں میں ڈال دیا۔اسی واقعے کو حقائق نامہ میں کچھ اور شکل دے کر بیان کیا گیا ہے۔
1947 کی جنگ آزادی میں بھی نمبردار نیت قبول ہی تھے جنھوں نے چترال سکاؤٹس کو پنجی لشٹ کے مقام پر خوش آمدید کہا اور اسی باونڈری سے ہی راشن کو غذر لے جانابھی غذر والوں کی ذمہ داری تھی۔
میرے انتہائی محترم عنایت اللہ فیضی صاحب! میں نے “شندور اور کو کوش لنگر (حقائق نامہ)” کے عنوان سے ایک انتیس صفحات پر مشتمل چھوٹا سا کتابچہ پڑھا۔ جسے آپ اور محمد شہاب الدین ایڈووکیٹ نے تحریر کیا ہے۔ اس کتاب کے سرورق اور اندر کے چند صفحات کو شندور کے تجاوزات پر مشتمل تصاویر سے مزین کی گئی ہے۔یہاں انتہائی غور طلب بات یہ ہے کہ اس مختصر کتابچے کے حرفے چند میں لکھا گیا ہے کہ “پڑوسی ملک کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینے لی سس ونگ (RAW)نے انگریزی میں کتابچہ شا ئع کر کے شندور کو گلگت بلتستان کی ملکیت ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی اور شندور کو اس خطے کا حصہ قرار دیا جو پاکستان اور ہندوستان کے مابین کشمیر کے نام سے متنازعہ چلا آرہا ہے۔کتابچے کے مصنف رائے سرفراز شاہ کا تعلق ضلح غذر کے گاؤں گوپس سے ہے۔کتابچہ کی اشاعت کے بعد اسے خفیہ رکھا گیا۔ ایک سو کی تعداد میں کاپیاں شائع کر کے دہلی، سری نگر اور گلگت بلتستان میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو دے دیا گیا”۔
حرفے چند میں صرف اسی پہ اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ مزید لکھتے ہیں کہ بہت جلد شندور کے حوالے سے پڑوسی ملک نے پشاور میں اپنی سرگرمیوں کا جال بچھایا اور خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان حکومت کے ذمہ داران اور آفیسران نے ایک خفیہ دستاویز پر دستخط کئے۔
قارئین کرام! عنایت اللہ فیضی اور محمد شہاب الدین ایڈووکیٹ کی اس کتابچے کے حرفے چند یا ابتدائے کو پڑھنے اور یہاں لگائے گئے انتہائی حساس مگر فرضی اور خیالی قسم کے الزامات سے اس کتابچہ کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ ایک کتابچہ کا آغاز ہی انتہائی زہر آلود قسم کے الفاظ اور اور ایک شخص کے ذات پر حملوں سے ہوں اور ایک معزز شہری کو بغیر کسی ثبوت و دلیل کے پڑوسی ملک کا ایجنٹ قراردیا گیا ہو۔ ایسا کتابچہ انتیس صفحات کا ہو یا انتیس سو صفحات کا کون اسے پڑھے گا تو کون اس میں دی گئی معلومات پر یقین کرے گا۔ انتہائی انتقام کے آگ میں جھلے ہوئے اور مٹی کی محبّت میں تمام حقائق کو مسمار کر کے پسند کی دیوار بنانے سے زمینی تسلیم شدہ حقائق مسخ نہیں ہوتے۔ اس یکطرفہ مختصر کتابچہ کے آخری صفحات رائے سرفراز کی کتاب کو ’’مشکوک کتاب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔رائے سرفراز شاہ کی کتاب اور حقائق نامہ کو بغور پڑھا جائے تو حقائق خود بخود عیاں ہو جاتے ہیں۔ خیر ان دونوں کتابوں پر کسی اور وقت تفصیل سے پھر بات ہوگی لیکن سر دست یہی کہوں گا کہ عنایت اللہ فیضی اور محمد شہاب الدین ایڈووکیٹ صاحب نے حقائق نامہ نہیں بلکہ ایک نفرت نامہ لکھا ہے. شہاب الدین صاحب کا نام میں نے پہلی بار سنا ہے مگر مجھے فیضی صاحب سے ایسی امید کبھی نہیں تھی اور یقیناً اس کے بعد آپ غذر اور گلگت بلتستان سے محبت اور وابستگی کا دعوی کریں گے تواس پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔کیوں کہ آپ نے گلگت بلتستان سکاؤٹس، جی بی انتظامیہ، پشاور میں ایم او یو پر دستخط کرنے والے حکومتی و سرکاری افسران، گلگت بلتستان کے سابق رکن اسمبلی و مشہور معلم استاد رائے سرفراز شاہ و دیگر کے حوالے سے جس طرح کی زبان اور جس طرح سے الفاظ کا چناؤ کیا ہے اس کے بعد کئی چھپی ہوئی حقیقتیں بھی تھیلی سے باہر آگئی ہیں۔ اب اس پر مذید وضاحتوں کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی ہے۔
جو انسان غذر کی امن پسندی اور غذر سے محبّت کی مثالیں دیتے ہوئے نہ تھکتا ہو اس کا اچانک ایک سرحدی مسئلے پر تمام حدود و قیود پار کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔غذر کے جس شخص پر آپ نے را کا ایجنٹ ہونے، بھارت کے کہنے پر کتاب لکھنے اور دہلی و سری نگر میں کتابیں بیجھنے کا الزام لگایا ہے وہ کوئی عام بندہ نہیں تین دہایوں سے زائد عرصہ مختلف سرکاری سکولوں میں بطور معلم (ہیڈ ماسٹر) خدمات انجام دے کر ریٹائر ہوگئے ہیں۔ اس دوران وو دیگر اہم سرکاری عہدوں پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب عوامی ممبر بھی رہ چکے ہیں. ایسے شخص پر الزام تراشی سے درس و تدریس سے منسلک دیگرافراد پر بھی سوالات جنم لے سکتے ہیں اور یقیناً آپ بھی ایک سرکاری ادارے میں ہی معلمی کے فرائض نبھا رہے ہیں۔ذرا احتیاط سے کام لینا کیوں کہ آپ نہ صرف ایک ا علی پائے کے معلم ہیں بلیک بڑے لکھاری، محقق، اور تجزیہ نگار بھی ہیں۔اور کوئی اسی طرح کے الزامات آپ پر بھی نہ لگائے۔ کیونکہ سرفراز شاہ کی طرح شندور پر آپ نے بھی کتابچہ تحریر کیا ہے۔مجھے یہ ڈر ہے کہ اس تحریر کے بعد کہیں مجھے بھی را کے اہم ذمہ دار کے طور پر پیش نہ کیا جائے یا پھر وہی بات ہی نہ دوہرائی جائے کہ مجھے بھی کہیں سے ڈکٹیشن ملی ہے اور مجھے سے بھی ایک خفیہ منصوبے کے تحت یہ تحریر لکھوائی جا رہی ہو۔ کیوں کہ حقائق نامہ سے لکھی گئی کتاب میں حقائق اتنے نہیں ہیں جتنا سہارا الزامات اور ذاتیات پر حملوں سے لیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے سرفراز شاہ سے میری دور دور تک کی کوئی رشتہ داری اور نہ کسی قسم کا کوئی تعلق ہے بس اب تک ان سے ایک ہی بار بائی چانس ملاقات ہوئی ہے۔ لہذا ان سے تعلق جوڑ کر کوئی الزام لگانا بھی بے سود ہوگا۔ عجیب بات ہے شندور کے حوالے سے سرفراز شاہ کتاب لکھتا ہے تو وہ سری نگر اور نئی دہلی کا ایجنٹ اور چترال کا کوئی بندہ کتاب لکھے تو وہ خالص محب وطن پاکستانی۔ واہ کیا انصاف ہے!!
گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں پر ایک خاص سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت قبضہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔گلگت بلتستان کے نامور محقق اور تجزیہ نگار علی احمد جان نے حال ہی میں ایک آن لائن بلاگ میں لکھے گئے اپنی تحریر میں اس مسئلے پر سے پردہ اٹھایا ہے۔وہ لکھتے ہیں “ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان کی سرحدیں اس خطے کے تنازع کے حل تک حکومت پاکستان کے پاس بطور امانت ہیں جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرنے کا اپنے وعدے کے مطابق بطور فریق ریاست کے صرف نہ وہ خود پابند ہے بلکہ اپنے شہریوں کو بھی خلاف ورزی سے روکنے کی پابند ہے۔”
وہ مزید لکھتے ہیں ” حکومت پاکستان کی یہ بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے موقف کی خود پاسداری کرے اور گلگت بلتستان کے حدود اور اس کی سرزمین میں ارادی اور غیر ارادی دراندازی، قبضے اور حیثیت میں تبدیلی کے اقدامات کو روکے اور لوگوں کو اقوام متحدہ کے قرار دادوں کے مطابق سیاسی اور دیگر بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اگر اس خطے میں دراندازیوں اور جبری قبضے کا سلسلہ نہ رکا تو ایک طرف پاکستان اقوام عالم کی نظروں میں اپنی اخلاقی برتری کھودے گا اور اس تنازعہ کے حل کے لیے درکار حمایت سے محروم ہو جائے گا تو دوسری طرف گلگت بلتستان کے عوام کے اعتماد کو دھچکا لگے گا۔”
اور یقیناً اس بات میں کسی بھی قسم کی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ گلگت بلتستان بلتستان کی سرحدوں کی حفاظت حکومت پاکستان اور پاک افواج کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر یہاں کے سرحدوں میں کسی قسم کی بھی ردو بدل ہو گی تو یقیناً مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو شدید دھچکہ لگے گااور انڈیا کا موقف اس حوالے سے بھاری ہو جائے گا۔ اب یہ بات سمجھنے کی ہے کہ گلگت بلتستان کی حدود کی خلاف ورزیوں سے پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے یا انڈیا کو۔کرنل ڈیورنڈ نے برطانوی ہند کے زمانے میں جو لائن کھینچی ہے وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو چکی ہے۔اب مختلف کتابوں، تحریروں،حوالوں اور دوسروں کو زبردستی کسی دشمن ملک کے خفیہ ایجنسی کے ساتھ جوڑنے سے حقائق تو کسی صورت تبدیل نہیں ہونگے البتہ عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا موقف کمزور ضرور ہو جائے گا۔
ایک اور اہم بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ سروے نقشہ شیٹ 12 42D/اور میپ شیٹ ”شمال مغربی سرحدی صوبہ” آف 1903 اور اس کا نواں پبلکیشن جو 1984 میں جاری ہوا یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شندور کو پانی بہاؤ کے عالمی قانون کے تحت تقسیم کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت پنجی لشٹ ہی باونڈری لائن بنتی ہے۔اگر کسی کی ذاتی خواہش پر اس عالمی سطح پر منظور کردہ قانون پر تبدیلی کی جاتی ہے تو اس سے انتہائی سنگین مسائل سامنے آ سکتے ہیں اور ملکی سلامتی کو بھی خدا نخواستہ خطرات درپیش آسکتے ہیں کیوں کہ پاکستان کے اکثر پڑوسی ممالک سے اسی قانون کے تحت سرحدیں تقسیم ہوئیں ہیں۔
شندور کے حوالے سے مجھے مجبوراًایسی تاریخی شہادتوں کا سہارا لیتے ہوئے یہ نکتہ بار بار تنگ کر رہا ہے کہ ایسی شہادتیں سامنے لا کر عوام کے جذبات کو ابھارنے سے کیا شندور کا مسئلہ حل ہو جائیگا؟کیا ان شہادتوں کو سامنے لانے کے لیے یہ موزوں فورم ہے؟ کیا ایسا تو نہیں ہو رہا کہ ہم گلگت بلتستان اور چترال کے باہمی پیار اور محبّت کی کہانیاں سنتے اور حوالے دیتے دیتے اسے قصہ پارینہ بنانے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟
میں اپنے انتہائی محترم فیضی صاحب جن کا میں دل سے قدر کرتا ہوں اور عوام چترال کا جن کے خلوص، کلچر اور امن پسندی کا میں دل سے قائل ہوں اس تحریر میں کوئی بھی ایسی بات جوناگوار لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔باقی وہ تاریخی حقائق جو آپ کو ناروا لگے ان پر میں کچھ نہیں کر سکتا۔کیوں کہ کبھی کبھار تلخ حقائق کا بھی سامنا کرنا زندہ دلی سے کم نہیں۔
میرے مطابق مسئلے کو مزید الجھانے کے بجائے سلجھانے کی اشد ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان اور غذر کی حکومتیں اور انتظامیہ شروع سے لے کر اب تک اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہیں۔ یہاں خیبر پختونخوا اور پنجاب سے آنے والے چیف سیکرٹریز اور دیگر متعلقہ آفیسران نے اہم مسئلے کو ہمیشہ پس پشت ڈالا ہوا ہے۔ اس بات کی واضح مثال جب 2013 میں عوام نے شندور کے مسئلے پر سوموٹو ایکشن کے لیے سپریم اپپلیت کورٹ گلگت میں درخواست دی۔اس وقت کے جج نے چیف سیکرٹری سیف اللہ چٹھہ کو شندور پر رپورٹ جمع کرانے کا کہا تو اس نے رپورٹ جمع کرانے کے بجانے اپنے تبادلے کو ترجیح دی۔ہاں البتہ غذر کے موجودہ ڈپٹی کمشنر نے جو کردار ادا کیا ہے وہ موجودہ و سابق منتخب نمائندے اور سابق افسران کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے بشرطیکہ وہ اس حقیقت کو سمجھ پائیں۔
مجھے اب یہ بھی خدشہ ہے کہ آپ بھی اس تحریر کے بعد مجھے کسی سازشی عناصر، ریڈیو آگاشوانی کا نمائندہ یا پھر کسی کا ایجنٹ ڈکلئیرنہ کر دیں۔
مجھ کو ظا لم کا طرفدار نہیں لکھ سکتے
کم سے کم وہ مجھے لاچار نہیں لکھ سکتے
جا ں ہتھیلی پہ لئے بول رہا ہوں جو سچ
اس کو اس دور کے اخبار نہیں لکھ سکتے
محترم فیضی صاحب!آپ نے خود یہ بات کہہ دی تھی کہ اپنی مٹی سے محبّت ہے تو اس کے تحفظ سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ لیکن میرا اس حوالے سے بھی موقف واضح ہے اور میں اس وقت ایک قدم نہیں بلکہ مکمل پیچھے ہٹ جاوٗں گا جب قانونی و تاریخی طور یہ علاقہ چترال کا حصہ قرار دیا جائے۔ اگر ثالث اور غیر متنازع فریق یہ فیصلہ دے دیں تو اس فیصلے کے آگے میں سر تسلیم خم کروں گا۔لیکن بیانات اور زور زبردستی کی بنیاد پر نہیں۔کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ دونوں علاقے کے تمام ذمہ دار اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز یہ لکھ کر دیں کہ ایک غیر متنازع فریق جس پر سب کا اتفاق ہے جو بھی فیصلہ کرے سب کو قابل قبول ہوگا۔ اگر اس مسئلے کو اسی طرح ہی الجاتے رہیں گے تو میرے حساب سی کبھی حل نہیں ہوگا۔بلکہ اس مسئلے کی وجہ سے دونوں علاقوں کے عوام ایک دوسروں سے دور ہو جاتے رہیں گے۔خلیج بڑھے گی، سازشی عناصر عملی طور پر سامنے آجائیں گے دونوں علاقوں کو لڑا کر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوششیں کریں گے۔ سال کے جن تین دن دنوں میں یہ میدان آباد ہوتا ہے اور دونوں اطراف کے عوام ایک دوسروں سے ملتے ہیں یہ سب بھی ختم ہوتا جائے گا۔ اگر ہم شندور کو بھی کشمیر بنائیں گے تو کچھ لوگ پستے رہیں گے اور کچھ کی دال روٹی گھلتی رہے گی اور یہ بروقت سمجھنا چاہئے کہ کون رل جائیں گے اور کون رلاتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں