اگرچہ اسلامی انقلاب کی داعی جماعت اسلامی قیام پاکستان سے قبل وجودمیں آئی تھی مگرنظام میں اصلاحات کی صورت میں اب تک کوئی بھی انقلاب لانے سے قاصرکیوں رہی ہے بالخصوص صوبہ خیبرپختونخوا کے اندرجہاں دوباریہ جماعت مخلوط حکومت میں بااختیارحیثیت سے برسراقتدار ہی ہے اٹھتے اس اہم سوال سمیت ایسے اور بھی بہت سارے سوالات ہیں جن کے جوابات اس جماعت نے قوم کودینے ہیں تاہم جماعت اسلامی وطن عزیزکے سیاسی افق پروجودرکھتی ایک منظم مذہبی اورجمہوری جماعت ہے اس حقیقت کوتمام سیاسی قوتیں اورمقتدر حلقے تسلیم کرتے ہیں ۔تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ ،اسلامی جمعیت طالبات ،دینی مدارس میں جمعیت طلبہ عربیہ جیسی طلباء تنظیموں اور جماعت اسلامی شعبہ خواتین سے لے کر سرکاری اور نجی سیکٹر کے اندرکسی بھی شعبے اورادارے میں اس جماعت کی مؤثراور فعال ذیلی تنظیمیں موجود ہیں جواپنے اپنے شعبوں میں ہمہ وقت مصروف عمل نظرآتی ہیں اوراگرسیاسی اختلاف کے باوجودحقیقت نظری سے دیکھا جائے توشائد یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ کئی حوالوں سے منفرد اوراصولوں کی پاسداری کے لئے اچھی شہرت رکھتی یہ واحد سیاسی جماعت ہے جوسیاسی تگ ودواورتنظیمی سرگرمیوں کے لحاظ سے کبھی بھی جمودکاشکارنہیں ہوتی۔جماعت اسلامی درس قران،درس حدیث، اجتماع کارکنان، اجتماع ذمہ داران، شب بیداری اوراجتماع عام جیسے پروگرامات کے تحت اپنے کارکنان کی،فکری، ذہنی وعلمی تربیت اورانہیں مصدقہ معلومات اور حقائق پر مبنی حالات کے تناظرمیںآگاہی دینے اور سیاسی طورپرعصرحاضرکے چیلنجز کامقابلہ کرنے سے متعلق تیارکرنے کادینی وعصری علوم سے آراستہ ٹیم کی نگرانی میں اہتمام کرتی ہے اور یہ سلسلہ طے شدہ شیڈول کے تحت سالہاسال جاری رہتاہے۔اب کی باراس جماعت نے 22تا23 اکتوبراضاخیل نوشہرہ میں قریباََ15 سوکنال اراضی پرخیموں کاشہربساکردوروزہ اجتماع عام کاانعقاد کیاہے اورجماعت اسلامی کے نقطہ نظرکے مطابق یہ غیرمعمولی اہمیت کی حامل سرگرمی ہے جس میں لگ بھگ ایک کروڑافرادکو شرکت کی دعوت دینے سمیت امام کعبہ،ترکی کے صدررجب طیب اردگان، کئی بین الاقوامی مذہبی سکالرز،اسلامی تحاریک کے قائدین اوردیگرمکتبہ ہائے فکرکے ملکی وبین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیات اور منتخب عوامی نمائندوں اورسیاسی جماعتوں کے سربراہان کوبھی مدعوکیاگیا ہے جبکہ نوجوانوں پر توجہ اولین ترجیح رکھی گئی ہے ۔ اس اجتماع کامقصد واضح طورپر سیاسی فوائد کاحصول اور الیکشن 2018میں بھرپورانتخابی کامیابی کے ساتھ حصول اقتدارکی مہم کاآغازہے جس کے بغیر جماعت اسلامی کاملک کواسلامی، فلاحی ،خوشحال اور معاشی طورپر مستحکم ریاست بنانے کاخواب شرمندہ تعبیرہونامشکل ہے یہی وجہ ہے کہ امن کی بحالی اورشہریوں کے جان ومال کے تحفظ،گیس اور بجلی کے بحرانوں اور کرپشن کاخاتمہ، صحت،تعلیم،روزگاراوررہائش جیسے بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنانے،یکساں نظام تعلیم رائج کرنے اورمیرٹ کی بالادستی کے ذریعے ہرشہری کوآگے بڑھنے کے یکساں مواقع دینے،آزادمعاشی وسیاسی پالیسی کے ذریعے پاکستان کوترقی یافتہ اور خودمختارمملکت بنانے، زرعی وصنعتی انقلاب کے ذریعے بیروزگاری کوختم کرنے،نوجوان طبقہ جوکہ ملک کاقیمتی اثاثہ ہے کے لئے تعلیم،روزگار،کھیل کے میدان اورجرائم سے پاک پرامن ماحول کی فراہمی کویقینی بنانے،خواتین کومعاشرے میں باعزت مقام دلانے اوران کے معاشی وسماجی حقوق جیسے علم کاحصول اورحق ملکیت وحق وراثت کو قانون اورتعلیم وترغیب کے ذریعے یقینی بنانے اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت واحترام اوران کوآئینی وقانونی حقوق سمیت تعلیم،روزگار اوردیگرحقوق مساویانہ طریقے سے عملاََ دینے جیسے ایشوزکوبنیاد بلکہ اپناانتخابی منشوربناتے ہوئے جماعت اسلامی شہریوں کواجتماع عام میں شرکت اورہمنوابنانے کی دعوت دے رہی ہے۔جماعت اسلامی کی قیادت کے مطابق اس اجتماع عام کانصب العین’’اسلامی اور فلاحی ریاست ‘‘کاقیام ہے اوراس میں کارکنوں کومتحرک کرکے آنے والے عام انتخابات کالائحہ عمل اور انتخابات میں کامیابی پر اسلامی نظام کے نفاذ کاروڈمیپ دیاجائے گاجبکہ صوبے کے حقوق کے لئے آواز بلند کی جائے گی اوروفاق پر واضح کیاجائے گاکہ فیڈریشن کاحصہ ہوتے ہوئے خیبرپختونخواکے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک بند کیاجائے۔ یہاں قابل ذکراٹھتاسوال یہ ہے کہ مستقبل میں جماعت اسلامی کیاکچھ کرنے جارہی ہے کیاجماعت اسلامی خیبر پختو نخواصوبائی حکمراں اتحاد سے الگ ہوکرنئی سیاسی بساط بناناچاہتی ہے ،کیاجماعت اسلامی مذہبی جماعتوں کے اتحاد مجلس عمل کا دوبار ہ قیام چاہتی ہے ،کیامستقبل میں وہ کسی اور سیاسی قوت کے ساتھ مل کرانتخابی اتحاداورانتقال اقتدارکاسوچ رہی ہے یاپھرالگ حیثیت میں اڑان بھرنے کاپلان بنارہی ہے اوراگرایساکچھ بھی نہیں ہے اور معاملات جیسے ہیں ویسے رہیں گے کی بنیادپر آگے بڑھتے ہیں توجماعت اسلامی کے صوبائی امیریہ کہتے سنائی کیوں دیئے ہیں کہ اضاخیل اجتماع عام میں پارٹی کے منشوراور بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق پارٹی قائدین سراج الحق،لیاقت بلوچ اور دیگر رہنماء کارکنوں کواعتماد میں لیں گے ۔بہرحال اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوامیں جہاں جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانافضل الرحمان،عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین اسفندیارولی خان اور صوبائی صدر امیرحیدرخان ہوتی،وزیراعظم کے مشیر امیرمقام اور قومی وطن پارٹی کے قائد افتاب احمد خان شیرپاؤ یوم تاسیس ،شمولیتی تقاریب اور ورکرزکنوشن کے نام پرمختلف اضلاع اور علاقوں کے دورے کرکے سیاسی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں وہیں جماعت اسلامی نے بھی اضاخیل نوشہرہ میں اجتماع عام کے نام پرعوامی اورسیاسی قوت دکھانے کااہتمام کیاہے۔جماعت اسلامی کی اس ممکنہ غیرمعمولی سرگرمی کامستقبل میں قومی اور صوبائی منظرنامے پر کیااثرات مرتب ہوں گے اس کافیصلہ توآنے والاوقت کرے گاالبتہ جماعت اسلامی اس اجتماع عام سے بہتر سیاسی فوائد لینے کے لئے یقینی طور پرامید ہے ۔